شہباز رشید بہورو
یہ ایک معروف کہاوت ہے کہ” تقدیر کے ہارے کبھی جیتا نہیں کرتے” ۔ جب تقدیر ہی کسی کوشش کرنے والے کے لئے فتح کا پروانہ لہرائے اور اس کی ایک جنبش یا حرکت کی منتظر ہو کہ وہ اسے فتح کی سند دے بیٹھے ، پھر بھی وہ آدمی یا قوم اتنی سست و بے حس بن چکی ہو کہ وہ تقدیر کو اپنے ہی خلاف اپنی کاہلی اور بزدلی کی وجہ سے فیصلہ کرنے پر مجبور کر دے تو اس آدمی یا قوم کی بدبختی کے متعلق کون سی رائے قائم کی جاسکتی ہے ۔یہی نا کہ وہ آدمی اپنے وجود میں ہی حوصلہ شکن ،بزدل ، ڈرپوک ، سست اور کاہل ہے اور انہی رذیل خصائص کا یہ ثمر ہے کہ وہ ذلت و مسکنت میں محصور ہے ،ظلم و بربریت سے چکناچور ہے اور اپنی زندگی سے مجبور ہے ۔تقدیر اپنی گدی پہ بیٹھ کر اس بات کی خواہشمند ہے کہ وہ آدمی اس حصار سے آزاد ہونے کے لئے آزادی کی سفارش پیش تو کرے لیکن حضرت جی ہیں کہ یہ اپنی نیند سے مجبور حصار میں ہی رہنا چاہتے ہیں، عیاشی سے مجبور حرام سے بچنا نہیں چاہتے ، حرص سے مجبور خرچ کرنا نہیں چاہتے ، خودستائی سے مجبور خلوص پیدا نہیں کرنا چاہتے ، اپنے تکبرسے مجبور خدمت خلق نہیں کرناچاہتے ، اپنے جھوٹ سے مجبور سچ کہنا نہیں چاہتے ، اپنے مفادات سے مجبور ایثار کرنا نہیں چاہتے ، اپنے طرزِ عمل سے مجبور اسلام پہ چلنا نہیں چاہتے ۔اب یہ سب کچھ حضرت کرنا نہیں چاہتے تو پھر اپنی ناکامی کا زمہ دار تقدیر کو کیوں کر ںٹھرائیں؟ پھر اس کہاوت کو بیان کرنا کہ مقدر کے ہارے کبھی جیتا نہیں کرتے اور اسی لئے ہم ہار گئے سراسر غلط ہے ۔ بلکہ اصل بات یہ ہے کہ حضرت جی نے اب اپنا تصور ،اپنا رویہ اور اپنا انداز ہی بدل ڈالا ہے ۔پہلے لیظہرہ علی الدین کلہ کا غلبہ اس پر حاوی تھا لیکن اب غلبہ دولت کا بخار ہے ، پہلےوہ خشیت الٰہی کا نمونہ تھا اب خشیت الناس کا مظہرِ اتم، پہلے مقاصد بلند تھے اور اب مقاصد حقیر ، پہلے دل میں درد تھا اب محض آنکھوں میں تری ، پہلے وہ نبض شناس تھا اور اب لذت شناس ، پہلے عمل کا پیکر تھا اور اب قول کا مجسمہ ،پہلے مد کا تیراک تھا اور اب جزر کا،پہلے آسمان پہ نظر تھی اور اب تحت الثری پر ٹکی ہوئی ہے ،پہلے خلوص تھا اور اب چاپلوسی ۔
تقدیر کسی ہلکی شئے کا نام نہیں کہ ایک انسان اپنی ایک جنبش یا اشارے سے فیصلے کروائے بلکہ یہ انسان کی ہمت، جرأت اور اولولعزمی کے ساتھ خلوص، حب الٰہی اور رضاٰے الٰہی کی جستجو میں آنسوں بہانے کی منتظر ہے ۔یہ کوئی پتہ نہیں جو ہوا کے جونکھے سے اپنا وجود بکھیر دے بلکہ یہ ایک پہاڑ ہے جو اپنی عظمت و سطوت کے سبب اپنے وجود میں ڈھیلاپن پیدا کرنے کے لئے حیرت انگیز محنت کی متقاضی ہے ۔ اپنی اس باعظمت و بارعب مقام کے باعث اس نے امم خیر کی اپنے دربارمیں حاضری کے لئے اسے اپنے تمام پروٹوکالز کی دشواریوں سے بری کیا ہے ۔یہ تقدیر کا اٹل فیصلہ ہے کہ ہر کچے پکے گھر میں حق فتح کا پروانہ لہراتا ہوا یقیناََ داخل ہوگا۔یہ تقدیر کی منشا ہے کہ حق کا بول بالا ہو کے رہے گا ۔یہ تقدیر کا حتمی نشانہ ہے کہ انہ باطل کان ذھوکا ہو کر رہے گا۔تقدیر کے ان فیصلوں کو کوئی بھی ٹال نہیں سکتا۔اب آپ خود فیصلہ کریں کہ تقدیر ہمارے حق میں کس قدرمہربان و معاون ہے لیکن پھر بھی حق کے نام نہاد علمبردار تقدیر کی منشاء، تقدیر کے فیصلوں اور تقدیر کی عمل کاری کی راہ میں روڑے اٹکائے تو تقدیر کاانہیں گھسیٹنا اس کا انصاف ہے ۔تقدیر حق کی حمایتی ہے لیکن ہم حق کے دشمن ۔تقدیر حق کی محب ہے اور ہم حق سے متنفر۔تقدیر ہماری خیرخواہ لیکن ہم اپنے ہی بدخواہ۔تقدیر ہماری درد شناس اور ہم اپنے درد سے غافل۔تقدیر ہماری مسلسل کامیابیوں کی متقاضی اور ہم اپنی ناکامیوں کے متمنی ۔اب تھوڑے لمحے کے لئے ہم خود ہی سوچیں کہ کیا یہ ہمارا عمل ٹھیک ہے کہ ہم اپنی پریشانیوں کا سبب تقدیر کو ٹھہرائیں؟ کیا ہمارا تقدیر سے مقدمہ بازی کرنا برحق ہے ۔یہ مقدر ہے کہ سورج کو صبح طلوع ہو کر دنیا کو روشن کرنا ہے لیکن ہم خود آلودگی کے ذریعے ایک گلاف میں لپٹے رہناچاہتے ہوں تو اس میں تقدیر اور سورج کی کیا خطاء ۔
عملِ صالح ہم نہ کریں اور شکوہ مقدرسے کریں ،سوئے ہم رہیں اور دیر سے جاگنے کا الزام مقدر پر تھونپے ،کھانا ہم خود نہ کھائیں اور بھوک کی وجہ تقدیر کو ٹھرائیں، احتیاط ہم نہ برتیں اور نقصان کا الزام تقدیر پر تھونپے ، محنت ہم نہ کریں اور مفلسی کی وجہ تقدیر کو بتلائیں، روشنی کا انتظام ہم نہ کریں اور اندھیرے کا الزام تقدیر پر تھونپے ،نافرمانیاں ہم کریں اور زمہ دار تقدیر کو ٹھہرائیں ۔عجیب معاملہ ہے ہماری مقدمہ بازی کا ۔تقدیر سے مقدمہ بازی کے اس عمل میں ہم اقوامِ عالم کے لئے شاید لطف اندوز مذاق کا بہترین مضمون بن چکے ہیں ۔
تقدیر کے دل کو شانتی بدر کے سپاہیوں، احد کے جانثاروں، خندق کے حکیموں اور صحرا کے شتربانوں نے بخشی۔محمد بن قاسم، طارق بن زیاد، صلاح الدین ایوبی، محمد فاتح وغیرہ تقدیر کے بہترین مہمان ٹھرے ہیں ۔ان حضرات نے تقدیر کے دربار میں بسبب اپنی محنت کے وہ جگہ بنا لی تھی کہ تقدیر کو ہر فیصلہ کرتے وقت ان کا خیال رکھنا پڑتا تھا۔بدر کے تین سو تیرہ نے ایک ہزار کے لشکرِ شیطان کو پاش پاش کر کے رکھ دیا اور تقدیر نے انہیں ہر ممکن مدد بہم پہنچائی ۔ہماری ملی تاریخ میں وہ درخشاں ادوار بھی گذرے ہیں کہ پڑھتے وقت طلاطم خیز جذبہ ابھر کے آتا ہے اور وہ بدقسمت ادوار بھی گذرے ہیں کہ جب سوئی ہوئی ملت کو روندہ گیا، گھسیٹا گیا، ان کے خون سے دریا رنگین کر دئے گئے، ان کا نام و نشان مٹایا گیا، ان کے وقار کو کچل کے رکھ دیا گیا اور ان کی سرزمینیں ان سے چھین لی گئی یا پھر دو لخت کر دی گئی، ایسا پڑھتے وقت مایوسی اور آنسوں کے سوا اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔اللہ تعالیٰ ہمارے حضرت اقبالؒ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے کیا خوب کہا تھا انہوں نے:
خوار از مہجوری قرآں شدی
شکوہ از سنج گردشِ دوراں شدی
اے چو شبنم بر زمین افتندئہ
در بغل داری کتابِ زندئہ
اپنی زبوں حالی تو ہم بہت بیان کرتے ہیں لیکن اس سے نکلنے کا علاج تجویز کرنے کی یا تو ہم کوشش نہیں کرتے اور اگر کرتے بھی ہیں تو صحیح نہیں کر پاتے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم میں عمل کا جذبہ ٹھنڈا لیکن بات چیت کا بھوت سوار ہے۔دینِ مبین کے احکامات پر چلنے کے لئے ہمیں نہ ہمت عدیم الفرصتی کے نام پر حاصل ہے اور نہ ہی اپنی دنیاداری کے مرض کی وجہ سے وہ عشق و محبت ،کہ کیفیت ایسی ہو جائے ان صلاتی ونسکی و محیای و مماتی للہ رب العالمین ۔
مجھ سے میرے عزیز و ہمدرد کہتے ہیں کہ آپ سماجی مسائل پر کیوں نہیں لکھتے ۔میں ان سے محبت سے عرض کرتا ہوں کہ میں چاہتا ہوں کہ اصلی مرض کی تشخیص ہو سکے جس کی وجہ سے یہ سب مسائل معرضِ وجود آتے ہیں ۔مسائل کی تہہ تک پہنچا جائے ۔میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے تمام چھوٹے بڑے مسائل مشکل اور پیچیدہ اسلام سے دوری کی وجہ سے پیدا ہو تے ہیں ۔
بھارت میں آج مسلمانوں کو اپنا آپ بھارت کا شہری ثابت کرنے کے لئے کہا گیا ہے جس کی وجہ ایک خوف ہراس کا ماحول بن چکا ہے۔لوگ پریشان یہاں تک کہ بھوک بھی نہیں لگتی، گھر میں دل نہیں لگتا، انٹرٹینمنٹ کرنے میں دل نہیں لگتا، بے چینی ہی بے چینی ہے۔لیکن میں سوچتا ہوں کل جب آخرت میں ہم سے الله تعالیٰ پوچھے گا کہ جنت میں جانا چاہتے ہو تو اپنا آپ مومن ثابت کرو، اپنا دین اور ایمان ثابت کرو ۔اس وقت کیا ہوگا۔لیکن اس کی کوئی فکر نہیں نافرمانی ہوئی ہم سے تو کوئی بے چینی نہیں، پلٹنے کا سوال نہیں، بدلنے کا امکان نہیں۔یہ کیسا ایمان ہےہمارا کہ ہم دنیا سے گھبرا جاتے ہیں کہ کہیں کوئی ایسی خطا سرزد نہ ہو جائے جس کی وجہ سے ہمیں دنیا کا خمیازہ مول نہ لینا پڑے۔آخرت کے نقصان کی پرواہ نہیں، الله کی ناراضگی کی پرواہ نہیں، رسولؐ کی محبت کا احساس تک نہیں لیکن پھر بھی اپنے مقدر میں جنت رقم کردی ہے ہم نے۔