OP-ED, Columnist |شہباز رشید بہورو
مجھے حیرت ہوتی ہے کہ امریکہ ہر معاملے میں اتنی ڈھٹائی کیوں برتتا ہے ؟کیوں امریکہ ہر جگہ اپنے ظالمانہ پنجے گاڑ دیتا ہے؟کیوں امریکہ ہر قسم کی پابندی سے آزاد ہے ؟کیوں امریکہ ہر عالمی معاہدے پر دستخط کرنے سے آزاد ہے؟ امریکہ کی تاریخ میں سینکڑوں کی تعداد میں ایسے معاہدے ہیں جن کو یا تو امریکہ نے مسترد کیا یا توثیق نہ دی یا پھر سرے سے قبول ہی نہیں کیا ۔ان تمام معاہدوں کی فہرست یہاں بیان کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ صرف امریکہ کی نیتِ بد کی طرف اشارہ کر کے اس کی حالیہ گنڈہ گردی کو ظاہر کرنا ہے۔امریکہ نے کچھ اہم ترین ٹریٹیز اور کنوینشنس کو توثیق دینے میں برملا عالمی تاناشاہی کا مظاہرہ کیا ہے ۔سی۔ٹی ۔بی ٹی، کیوٹو پروٹوکول، مون ٹریٹی ، پیرس معاہدہ وغیرہ کا مذاق اڑا کر دنیا کے ممالک کو من مانی اور ہٹ دھرمی کا درس دیا ہے۔حال ہی میں امریکہ نے اپنی مذموم روایت کو برقرار رکھ کر ایک بار پھر اپنے حرص و طمع کی ترجمانی کرتے ہوئے عالمی برادری کے اعتماد کو دھچکا دیا۔ڈونالڈ ٹرنپ نے ان حالات میں جب کہ آج پوری زمین پر کورونا کی وجہ سے افراتفری پھیل چکی ہے، دنیا کے بیشتر ممالک کورونا کا مقابلہ کرنے کے لئے یکجا ہو رہے ہیں اور اپنے مابین چھوٹے بڑے تنازعات کو بھول کر اس آفت سے دست وگریباں ہیں۔لیکن ڈونالڈ ٹرنپ نے اپنے ایک نئے فرمان میں امریکہ کو چاند پر کان کنی کرنے کی یکطرفہ اجازت دی ہے۔امریکہ نے 6اپریل کے جاری ایگزیکیٹو آرڈر میں امریکی انسانی خلائی دریافت کے پروگرام کے تحت امریکہ کی زیر نگرانی تمام کمرشل اتحادیوں کو چاند کے وسائل کی تلاش اور بعد ازاں استعمال کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ایگزکیٹو فرمان نے اس بات کو واضح کیا ہے کہ امریکہ خلاء کو بین الاقوامی اشتراک کا حصہ تسلیم نہیں کرتا اور بغیر کسی عالمی معاہدے کے یکطرفہ طور پر کان کنی کا آغاز کر رہا۔یاد رہے کہ گلوبل کامنس ایک اصطلاح ہے جو پوری دنیا کے مشترکہ وسائل و ذرائع کے لئے استعمال کی جاتی ہے ۔بین الاقوامی قانون کے مطابق گلوبل کامنس میں عام طور پر چار قسم کے وسائل کی تخصیص کی گئی ہے ۔یہ چار وسائل بڑے سمندر ،ماحول، انٹارکٹیکا اور خلاء(Space) پر مشتمل ہیں ۔زمین کے ساتھ ملحق و منسلک ان چار حصوں کو بین الاقوامی قوانین کے تحت انسان کا عمومی ورثہ تسلیم کیا گیا ہے۔ٹرنپ کے ایگزیکٹو آرڈر کے مطابق امریکہ ہر اس حرکت کی مخالفت کرے گا جو بین الاقوامی قانون کا سہارا لے کر اس کی خلائی مہیم کو روکنے کے لئے کی جائے گی ۔ٹرنپ خلاء میں امریکی بالادستی قائم کرنے میں بہت دلچسپی رکھتا ہے۔ڈونالڈ ٹرنپ نے خلائی بالادستی قائم کرنے کے لئے خلائی فوج (Space Force) بھی تشکیل دی ہے ۔گذشتہ سال کے دسمبر میں ڈونالڈ ٹرنپ نے خلائی فوج تشکیل دینے کی تقریب کے موقعہ پر کہا تھا کہ ؛
” خلا عالمی جنگوں کا نیا میدان ہے.ہماری نیشنل سیکیورٹی کو درپیش سنگین خطرات کی نزاکت کو مدنظر رکھتے ہوئے خلاء میں امریکی بالادستی قائم کرنا ناگزیر ہے۔اور ہم قیادت کر رہے ہیں لیکن مطمئن بخش قیادت سے ہم بہت دور ہیں اور اگر ایسا ہی ہماری صورتحال رہی تو ہم جلدہی دوسروں کی قیادت کے رحم و کرم پر ہونگے۔”
امریکہ کا یہ رویہ ظالم طاقتور ممالک کو ظلم کرنے کا درس دیتا ہے ۔عالمی مشترکہ وسائل پر ہر ملک برا بر کا حق رکھتا ہے .اگر کوئی ملک اپنی دولت اور سائنسی مہارت کی بنیاد پر ان مشترکہ وسائل کو حاصل کرنے کے قابل ہوتا ہے تو اسے چاہیے کہ دوسرے چھوٹے ممالک کو مشارکت کے اصول پر شامل کرے ۔لیکن اس دنیا میں طاقتور ممالک نے ہمیشہ سے ظالمانہ اور جابرانہ رویہ اختیار کر کے اپنی خودغرضی کے نشہ میں چھوٹے اور غریب ممالک کا استیصال کیا ہے۔اپنی طاقت کے بل بوتے پر انہوں نے اخلاق اور قانون کو روند ڈالا ہے۔امریکہ نے دور جدید میں اس زمین کو اپنے لالچ کی وجہ سے میدان جنگ بنا ڈالا تو ہے ہی لیکن اب چاند کو بھی مستقبل میں اپنی جنگوں کا مرکز و محور بنانے پر تلا ہوا ہے۔چاند اس زمین پر بسنے والی پوری انسانیت کا مشترک اثاثہ ہے۔اس اثاثے کا استعمال کسی بھی ملک کی خودمختاری،ناجائز قبضے یا دوسرے کسی غیر قانونی یا غیر اخلاقی طریق پر نہیں ہونا چاہئے ۔لیکن امریکہ مسلسل عالم انسانیت کا امن داو پر لگانے کا ٹھیکہ لے چکا ہے۔امریکی صدر نے اس خلائی وسائل کے استعمال کا بیان دیتے ہوئے اشارۃً و کنایۃً خلائی جنگ کا بھی ذکر کیا تھا۔یہاں سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے امریکہ اپنے فوجی قوت کے غرور میں اور اپنے لالچ کے نشے میں مستقبل میں شاید دنیا کو ایک دوسرے نوع کی جنگ میں دھکیل رہا ہے ۔جو جنگ ظاہر سی بات ہے کہ زمین سے باہر خلا میں لڑی جائی گی لیکن اس دوڑ میں دوسرے ممالک بھی شامل ہوکر اپنے زمینی وسائل کا فضول استعمال کر کے عالمی امن کے امکان کو بعید سے بعید تر کریں گے۔یہ تو ابھی آغاز ہے اس نئی جہت کا بس صرف ایک چنگاری ہے۔اس بات کو سمجھنے کے لئے آپ بحری ،بری اور فضائی ہتھیاروں کی مثال کو سامنے رکھ سکتے ہیں کہ کس طرح سے دنیا کےممالک اس دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے جارہے ہیں۔
روس نے امریکہ کے اس ایگزیکیٹو آرڈر کی سخت مخالفت کرتے ہوئے اسے امن عالم کے لئے ایک خطرہ قرار دیا ہے ۔روئٹرزکے مطابق روس کی خلائی ایجنسی روسکوسموس نے امریکہ کو دوسرے سیاروں پر قبضہ جمانے کی خود ساختہ اور مجرمانہ بنیاد بنانے کا مؤردِ الزام ٹھہرایا ہے۔روسکوسموس کے مطابق امریکہ کے اس ایگزیکیٹو آرڈر نے اس ضمن میں اقوام عالم کے اتحاد کو خارج از امکان بنا دیا ہے۔روسکوسموس نے مزید بتایا کہ اس آرڈر نے امریکہ کو مشکلات میں ڈال دیا ہے اور امریکہ کی طرف سے خلائی وسائل کو حاصل کرنے کی پہل اسے مشکل ہی سے اقوام عالم کا اعتماد جیتنے کا حامل بنا سکتا ہے۔امریکہ کا یہ اقدام 1979کے مون ٹریٹی کے سراسر خلاف ہے جس پر امریکہ نے دستخط نہیں کیے ہیں ۔مون ٹریٹی کے مطابق خلائی وسائل کا غیر سائنسی استعمال بین الاقوامی قوانین کے تحت ہونا چاہئے ۔ایگزکیٹو آرڈر کےمطابق امریکہ اور اس کے ہم خیال ممالک کی انڈیسٹریز کو کرہ ارض سے باہر ان فعال منصوبوں سے بے حد فائدہ حاصل ہوگا۔ایگزیکیٹو فرمان کی شک نمبر دو کے تحت یہ درج ہے کہ
“امریکہ معاہدہ مہتاب کا فریق نہیں ہے ۔مزید یہ کہ امریکہ معاہدہ مہتاب کو کسی بھی اجرامِ فلکی کی طویل المدت تلاش و دریافت اور استعمال کے لئے موئثر اور ضروری زاویہ نہیں سمجھتا ہے۔اسی کے مطابق سیکریٹری آف سٹیٹ کسی بھی دوسرے ملک یا تنظیم کی طرف سے معاہدہ مہتاب کو واجب التعمیل یا کوئی بین الاقوامی قانون قرار دینے کے اقدام کی سخت مذمت کرے گا۔”
دوسری جانب روس کے کریملن کے ترجمان ڈیمٹری پیسکو (Dimitry Peskov) نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی خلائی نجکاری کے حوالے سے کوئی بھی چھوٹی بڑی کوشش ناقابلِ قبول ہوگی۔اس طرح سے ایک نئی رسہ کشی اقوام عالم کے مابین منتظر ہے۔
Note : The Op-Ed pages feature opinion pieces written by outside contributors and IK’s own team of columnists and Editorial board members .