تحریر نورالحسن اندرابی
اتوار کے روز سرحدی ضلع کپواڑہ کے کرناہ کیرن سیکٹر میں ہند و پاک افواج کا ایک بار پھر آمنا سامنا ہوا۔یہ آج ہی نہیں ہوا بلکہ پچھلے کئی سالوں سے چلتا آرہا ہے لیکن آج اِس گولہ باری نے اِس قدر سگین نتائج دیئے کہ ہر ایک کا روح اِس سے کانپ اُٹھا۔دیکھتے ہی دیکھتے کیا سے کیا ہوگیا،گن گرج سے پورا علاقہ کانپ اُٹھا۔ہر سو خوف و ہراس کا ماحول پیدا ہوگیا۔سرحدی علاقوں میں رہائش پذیر لوگوں کی زندگیاں اجیرن بنی ہوئی ہے۔ ہند و پاک افواج کے درمیان لائین آف کنٹرول پر گولہ باری کا سلسلہ آج کل عروج پر ہے۔جہاں ایک طرف دنیا کرونا وائرس سے نجات ملنے کے لیے لڑ رہی ہے وہیں دوسری جانب سرحد پر ہند و پاک افواج ایک دوسرے پہ غصہ نکالنے کے لیے وہاں کے عوام کو تباہ و برباد کر رہے ہیں۔سرحد پر جنگ بندی کی خلاف ورزی چاہئے ہندوستان کرے یا پھر پاکستان بیچ میں کشمیری عوام ہی نشانہ بنتی جارہی ہیں۔
اگر چہ ایک طرف گھروں میں رہنے کے لیے ہی کو ترجیح دی جاتی ہے وہیں دوسری طرف سرحد پر دونوں ممالک کی افواج کے درمیان شدید گولہ باری سے اِن علاقوں کے لوگوں کو اپنے اپنے گھروں سے بھاگنا پڑرہا ہے۔اُف!!! یہ کیسی زندگی ہے جہاں بیٹا صبح کا ناشتہ ماں کے ساتھ دسترخوان پہ کرتا ہے اور پھر ڈینر(Dinner)اِس ماں کواِس لخت جگر کے بغیر کرنا پڑتا ہے۔ اُس ماں کو کیا معلوم تھا کہ میرا لخت جگر میرے ساتھ آج آخری مرتبہ ناشتہ کررہا ہے۔اُس ماں کو کیا معلوم تھا کہ میرا لخت جگر آج مجھے چھوڑ کر جائے گا اور پھر مجھے ساری عمر اِس لخت جگر کے بغیر کاٹنا پڑے گی ۔ یہ کیسی زندگی ہے جہاں لوگوں کو روز جنازے اُٹھانے پڑتے ہیں۔ یہ کیسی زندگی ہے جہاں بیٹے کے جنازے کو باپ کندھا دیتا ہے۔یہ کیسی زندگی ہے جہاں لوگوں کو امن کے بدلے گولہ باری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔۔۔آخر سرحد پر رہ رہے لوگ بھی تو جینے کا حق رکھتے ہیں۔وہ بھی عیش و عشرت کی زندگی گُزار لینا چاہتے ہیں۔
سرحد پر اتوار کے روز ہوئی شدید نوعیت کی گولہ باری میں تین عام شہری جاں بحق ہوے وہیں اِن میں ایک معصوم بچہ بھی شامل تھا۔صحن میں کھیل رہا تھا ذیشان کو ایک گولہ نے اپنے زد میں لاکر اُس سے ابدی نیند سُلا دیا اور اپنی ماں سے ایک دم سے جدا کر دیا۔گولہ کہاں سے آیا پاکستان سے آیا یا پھر بھارت کی طرف سے کچھ بھی کہا نہ جاسکتا لیکن گولہ باری اس قدر شدید نوعیت کی تھی کہ پورا سیکٹر گولیوں سے گونج اٹھا اور پورے سیکٹر میں خوف و دہشت کا ماحول پیدا ہوگیا۔ وہاں رہ رہے لوگ اب گھروں میں نہیں بلکہ کھلے آسمان تلے زندگی بسر کررہے ہیں اور اِسی میں وہ بہتری سمجھتے ہیں۔ایک طرف کرونا وائرس نے تہلکا مچا کر رکھ دیا ہے وہی دوسری جانب سرحد پر ہورہی گولہ باری نے اِن کے مشکلات میں مزید اضافہ کیا۔
اتوار کے روز ہر ایک کا دل اُس وقت رنجیدہ ہوگیا اور ہر ایک کی آنکھ نم ہوئی جب شوشل میڈیا پر ایک ایسی تصویر وائرل ہوئی جس نے ہر ایک کا قلب توڑ کر رکھ دیا۔یہ تصویر ایک ماں کی تھی جس نے اپنے لخت جگر کو سرحد پر ہوئی گولہ باری سے کھو دیا۔اِس تصویر نے ہر ایک کی کمر توڑ کر رکھ دی۔اِس تصویر میں ماں نے اپنے ذیشان کو گود میں لے کر زاروقطار رو رہی تھی لیکن ہماری حکومت ابھی تک خوابِ غفلت میں سوئی ہوئی ہے۔سیاسی و سماجی جماعتوں نے جم کر مذمت کی اور حکومت کو آڑے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا کہ اِن کو تحفظ فراہم کرنے میں حکومت پوری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ ذرا دو منٹ کے لیے اِس ماں کے لیے سوچو کہ اپنے لخت جگرکے لئے کیسے کیسے خواب دیکھے ہونگے۔کیا اُس ماں نے یہ نہیں سوچا ہوگا کہ میرا لخت جگر بڑا ہوکر ڈاکٹر،انجینئر،صحافی یا کوئی اور بڑا آفیسر بن جائے گا اور پھر قوم کی خدمت کرے گا لیکن اُس ماں کے تمام خواب چکنا چور ہوگئے۔ذرا دو منٹ کے لیے سرحد پر رہائش پذیر لوگوں کے لیے سوچو جہاں اُن کو روز گولیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جہاں اِس وقت گھمبیر صورتحال کو دیکھ کر پوری دنیا گھروں میں ہی مسدود ہو کر رہ گئی ہے اور وہیں سرحد پر ہورہی گولہ باری سے وہاں کے لوگوں کو اِس مشکل وقت میں بھی آسمان تلے اپنی زندگی گزر بسر کرنی پڑ رہی ہے۔سرحد پر رہ رہے لوگوں نے کئی بار حکومت سے استدعا کی کہ اِن کی تحفظ کے لیے سرحد پر ٹینکر لگایا جائے لیکن بدقسمتی سے حکومت آج تک ٹس سے مس نہیں ہوئی اور سرحد پر روز ہورہی شدید گولہ باری سے لوگوں کی زندگیاں اجیرن بن گئی۔آج تک کتنے جانیں تلف ہوئی،کتنے خاندان اُجڑ گیے،کتنے مکان راکھ کی ڈھیر میں تبدیل ہوگئے اندازہ لگانا مشکل ہے۔
بہر حال ہر ایک انسان کی قمیت ہوتی ہے چاہئے وہ آفیسر ہو، مزدور ہو،ملازم ہو یا پھر ہماری طرح ایک عام انسان ہو۔سماج میں ہر ایک انسان کی قمیت ہوتی ہے اور پھر چاہئے وہ شہر میں رہتا ہو یا پھر گاؤں دیہاتوں میں رہتا ہو۔اگر سرحد پر ایسی ہی صورتحال برقرار رہی تو وہاں کے لوگ خودکشی کرنے پر مجبور تو ہوجانیگے اور پھر ذمہ دار کون ہوگا؟۔ کیا حکومت نے کبھی ایسا سوچا۔۔۔نہ تو اُن کو تحفظ فراہم کی جاتی ہے اور نہ ہی اُن کو کسی اور جگہ منتقل کیا جاتا ہے جہاں وہ اپنی زندگی خوش اسلوبی کے ساتھ گزر بسر کرے۔آخر یہ لوگ جائے تو جائےکہاں؟؟؟۔آخر یہ لوگ فریاد کریں تو کس سے کریں۔آخر یہ لوگ اپنی اپنی داستانیں سُنائیں تو کس کو سُنائیں گے،،سننے والے تو بہت ہیں لیکن سننے کے بعد کویی اِن کا پرسان حال نہیں۔ اِن کو تحفظ فراہم کرنے والا شاید کوئی نہیں۔اس وقت سرحد پر پیدا شدہ صورتحال سے نمٹایا جانے کے لیے حکومت کو آگئے آنا چاہئے لیکن نہ جانے کن کے خوابوں میں مست ہے۔
الغرض مرکز کو چاہئے کہ سرحد پر ہورہی گولہ باری کو کچھ وقت کے لیے التواء میں ڈالا جائے اور پہلے کرونا وائرس سے جیت حاصل کریں اور پھر جنگ کے لیے سوچ لیں۔سرحد پر رہ رہے لوگوں کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے اور یا اِن لوگوں کو دوسری جگہ منتقل کیا جاے اور ہاں اگر ایسا نہ کیا گیا تو شاید ہمیں تیسری جنگ کرونا وائرس سے پہلے ہی دیکھنے کو مل سکتی ہے۔خدا کرے ایسا نہ ہو۔۔