Latest News Of Kashmir And Daily Newspaper

موت کے سودا گر اور کورونا وائرس

شہباز رشید بہورو

سٹاک ہولم پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ SIPRI کی حالیہ رپورٹ کے مطابق امریکہ، روس، فرانس، جرمنی، اور چین گذشتہ پانچ سالوں میں دنیا کے سب سے بڑے موت کے سوداگر کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئے ہیں ۔رپورٹ کے مطابق امریکی اسلحہ کی برآمدات پچھلے پانچ سالوں میں76 فی صد کی شرح سے بڑھ چکی ہے اور روس کی 18فی صد کی شرح سے کم ہو چکی ہے۔پچھلے پانچ سالوں میں امریکہ نے اپنا آدھا سے زیادہ اسلحہ(Arms)مشرقی وسطی کے ممالک کو برآمد کیا ہے ۔کل برآمدات کا نصف حصہ صرف سعودی عرب نے خریدا ہے ۔مزید یہ کہ امریکہ کے اعلیٰ درجے کے فوجی طیاروں کی مانگ خصوصی طور پر یورپ،اسٹریلیا، جاپان اور تیوان کی طرف سے بڑھ رہی ہے۔فرانس کے اسلحہ کی برآمدات1990 سے لیکر2015تک کے مقابلے میں پچھلے پانچ سالوں میں سب سے زیادہ رہی۔فرانس کا گلوبل آرم ایکسپورٹ میں7.2فی صد کا حصہ رہا ہے۔فرانس کی آرم انڈسٹری کے سب سے بڑے خریدارممالک میں مصر ،قطر اور بھارت سرفہرست ہیں۔رپورٹ میں یہ بھی لکھا تھا کہ امریکی اسلحہ کی تجارت مسلسل پھیلتی جارہی ہے، تقریباً 96ممالک امریکہ سے ہتھیار خرید رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں امن کا سب سے بڑا ٹھکیدار دنیا کا سب سے بڑا موت کا سوداگر ہے۔اسرائیل دنیا میں اسلحہ کی تجارت میں جنوبی کوریا کے بعد دوسرے نمبر پر آچکا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اسلحہ کی برآمدات زیادہ تر جنگ سے متاثرہ ممالک کی طرف ہی رہی ہیں ۔مشرقی وسطی میں اسلحہ درآمدات کی شرح14-2010اور 19-2015کے درمیان 61فی صد کی شرح سے بڑھ چکی ہے ۔جو کہ پچھلے پانچ سالوں میں کل عالمی اسلحہ برآمدات کا 35فی صد حصہ بنتا ہے۔ گذشتہ پانچ سالوں میں سعودی عرب دنیا کا سب سے بڑا آرم ایمپوٹر ملک رہا ہے اور اس کے بعد بھارت دوسرے نمبر پر آتا ہے۔یمن جنگ میں سعودی عرب کی مسلسل زیادتیوں پر امریکہ اور برطانیہ اپنی مخالفت کے باوجود سعودی عرب کو سب سے زیادہ اسلحہ فراہم کرنے والے ممالک ہیں ۔سعودی عرب نے 73فی صد اسلحہ آمریکہ سے اور 13فی صد برطانیہ سے درآمد کیاہے۔
حالیہ اعداد وشمار کے مطابق جنوبی کوریا کے بعد اسرائیل دوسرا ملک ہے جس نے ہتھیار بنانے اور برآمد کرنے میں حالیہ سالوں کے اندر کافی سرعت لائی ہے۔اسرائیل کی اسلحہ تیار کرنے والی انڈسٹریز نے 77فی صد شرح کے حساب سے اپنی تجارت میں اضافہ کیا ہے۔گذشتہ سال سیبات ایس۔بی۔اے۔ٹی ( جو کہ اسرائیلی اسلحہ کے بنانے، ٹیسٹ کرنے اور برآمد کرنے سے وابسطہ ایک اہم ادارہ ہے )نےایک مفصل اور ہمہ گیر پلان جاری کیا تھا،جس کا مقصد بھارت، امریکہ اور فن لینڈ کو مدنظر رکھتے ہوئے اسرائیلی اسلحہ کی تجارت کو پھیلانے سے متعلق تھا۔دنیا میں اسرائیلی اسلحہ کی مانگ بڑھتی جارہی ہے۔جس کی پہلی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ اسرائیل نے اسلحہ کی تجارت کو سیاسی پابندی سے آزاد رکھا ہے۔اسرائیل کس بھی ملک کو بغیر جانچنے کے ہتھیار بے باکی سے فراہم کرتا ہے۔حتی کہ اسرائیل کھلم کھلا دہشتگرد تنظیموں کو بھی اسلحہ بیچنے سے نہیں کتراتا ۔دوسری وجہ یہ بتلائی گئی ہے کہ اسرائیلی ہتھیار پہلے ہی سے جانچا ہوا ہوتا ہے۔اسرائیل اس ضمن میں نہتے فلسطینیوں اور ان کی زمینوں پر اپنے ہتھیار کا بغیر کسی پابندی کے ٹیسٹ کرتا ہے۔

یہ موت کے تاجر جنہیں قتل و غارت کے نشہ نے اتنا بے رحم اور بے باک بنایا ہے کہ آج بھی مظلوموں پر قیامت خیز مظالم ڈھائے جارہے ہیں۔دنیا میں اکثر بڑے بڑے طاقتور ممالک اپنے قومی بجٹ کا بیشتر حصہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والے سازو سامان کو خریدنے میں صرف کرتے ہیں اور آج جب کہ کورونا وائرس نے پوری دنیا پر حملہ بول دیا ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لئے نہ ہی فوج اور نہ بڑے بڑے نیوکلیائی ہتھیار استعمال ہو سکتے ہیں بلکہ اس پر قابو پانے کے کے لئے فسٹ ایڈ کے طور پر جو نظام صحت سے منسلک بنیادی ہیلتھ سہولیات دستیاب ہونی چاہئے تھیں آج وہ بھی ان ممالک کے پاس نہیں ہیں۔اگر یہ ممالک پوری دنیا کے لوگوں کو مارنے کے لئے بہترین انتظام کرتے ہیں تو کم ازکم اپنی ہی عوام کو بچانے کے لئے انہیں کچھ انتظام کرنا ہی چاہئے تھا۔آمریکہ کا نظامِ صحت دنیا میں سب سے اعلیٰ مانا جاتا تھا لیکن کورونا کی وبا کے سامنے کمزور پڑ رہا ہے۔روس نے امریکہ کو طبی امداد مداد فراہم کی ہے حالانکہ روس خود بھی کورونا کے تناظر میں ضروری طبی سہولیات سے مطمئن بخش تیاری نہیں رکھتا ہے۔رپوٹس کے مطابق اٹلی، جرمنی، سپین، امریکہ اور برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ممالک کو وینٹیلیٹر، پلنگ، ماسک، ڈیٹرجنٹ اور دیگر اہم میڈیکل سازوسامان کے ساتھ ساتھ طبی عملے کی بھی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
امریکہ نے کورونا وائرس سے شدید طور پر متاثر ایران پر پابندی عائد کر رکھی ہیں ۔ایران میں کورونا وائرس کی وجہ سے ابھی تک3036سے زیادہ لوگ جاں بحق ہوچکے ہیں اور وائرس سے متاثر شدہ مریضوں کی تعداد 47593سے تجاوز کرچکی ہے۔فی الحال اس بیماری پر قابو پانے کے امکانات تہران کے لئے بعید نظر آرہے ہیں ۔ایران نے حال ہی میں انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ سے 5بیلین ڈالر کی امداد طلب کی تھی لیکن امریکہ کی عائد کردہ پابندیوں کی وجہ سے ایران مدد حاصل کرنے سے قاصر رہا ۔اس پر مستزاد امریکہ نے ایران کی تیل انڈسٹری پر پابندی عائد کر دی ہے جو کہ ایران کے لئے ذر مبادلہ حاصل کرنے کا واحد ذریعہ رہ گیا تھا۔ایران اندرانی طور سخت معاشی بحران سے دوچار ہے۔لیکن اس خستہ حالی کی وجہ صرف امریکہ یا سعودی عرب ہی نہیں ہے بلکہ خود ایران بھی برابرا کا شریک ہے ۔ایران اپنے شہریوں کو خوشحال رکھنے کے لئے اتنا کچھ سرمایہ صرف نہیں کر رہا ہے جتنا کہ بشار الاسد، ہوثی باغیوں، عراقی حکومت اور حزب اللہ کو مضبوط کرنے کے لئے صرف کر چکا ہے۔ایران پر عائد کردہ پابندیاں ایران کو قابلِ ترس تو ضرور بناتی ہیں لیکن ایران کی پالیسیاں بھی کسی مثبت مقصد کے لئے جاری نہیں ہیں۔ایران برابر اپنی منفی فرقہ وارانہ شدت پسند سوچ کے تحت میڈل ایسٹ میں اپنی بیرونی پالیسیاں طے کر تا ہے ۔اس لئے میں ایران کو بھی موت کے سوداگروں کی فہرست میں برابر شامل رکھتا ہوں ۔سعودی عرب میں بھی تقریباً 1100سے زائد کیسس سامنے آچکے ہیں ۔میڈل ایسٹ آی کے مطابق سعودی عرب میں بھی فرماسیز کو ماسک وغیرہ کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔سعودی عرب بھی اپنی آمندنی کا وافر حصہ یمن ،عراق اور شام میں صرف کررہا ہے۔ہر جگہ انسانیت کا خون بہانے کے لئے یہ موت کے سوداگر تیار بیٹھے ہوتے ہیں ۔اپنی عوام کی خوشحالی کے بدلے یہ اپنے اپنے ملک کو اپنی خواہشات کے لئے استعمال کر رہے ہیں ۔
اسرائیل نے فلسطینیوں کا عرصہ حیات تنگ کر کے رکھا ہے۔آج جس مصیبت سے دنیا دوچار ہے اسرائیل آج اس مصیبت میں بھی فلسطینیوں پر زیادتیاں کر رہا ہے ۔ایک یہودی خبررساں ایجنسی” بتسیلم “کے مطابق اسرائیلی پولیس ہر وقت مشرقی یروشلم میں فلسطینیوں پر ظلم و زیادتی کرنے کے لئے تیار رہتی ہے حتی کہ رات کے اوقات میں چھاپے مار کر معصوم بچوں کو گرفتا کر کے رات بھر بلاوجہ تفتیش کرتی ہے۔رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج کا عوام کے ساتھ جان بوجھ کے بغیر کسی معقول وجہ کے زیادتی کرنا فلسطینیوں کو آج اس کورونا وائرس کے خطرے میں بھی جمع ہونے اور احتجاج کرنے پر مجبور کرتی ہے جس سے بیماری کے پھیلنے کے خدشات برابر بڑھتے جارہے ہیں ۔اسرائیلی آبادکار مسلسل فلسطینیوں پر زیادتیاں کر رہے ہیں ۔رپورٹ کے مطا بق آبادکاروں نے فلسطینی گلہ بانوں اور کسانوں پر حملہ کرکے انہیں لہو لہان کر دینے کو ایک شکار والا مشغلہ بنا رکھا ہے جس سے وہ دل بہلائی کرتے جارہے ہیں ۔معروف فلسطینی صحافی اور فلسطینی روزنامچہ کے ایڈیٹر رامزی بارود لکھتے ہیں “یہودی آبادکاروں کاتشدد اسرائیلی فوج سےمختلف نہیں دیکھا جانا چاہئے بلکہ اسے وسیع صہیونی سوچ کے تناظر میں جانچا جانا چاہئے جو سوچ پوری اسرائیلی سوسائٹی پر حکومت کرتی ہے”۔مغربی کنارے کو حال ہی میں اسرائیلی انتظامیہ نے لوک ڈاؤن کر دیا تھا لیکن اسرائیلی آباد کار اس لاک ڈاؤن کا بھر پور فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ایک فلسطینی سماجی کارکن نے میڈل ایسٹ آئ کو بتایا کہ “آباد کار جانتے ہیں کہ لوگ لوک ڈاؤن کی وجہ سے گھروں میں محصور ہیں لیکن وہ اس موقعہ کا بھر پور فائدہ اٹھا کر ہماری زمینوں کو ہم سے چھین رہے ہیں “.ایک اور آدمی کا کہنا ہے کہ ہم ناجائز قبضے کے پتھر اور کورونا کے ہتھوڑے کے مابین پس رہے ہیں اور لوک ڈاؤن کے بعد ہمیں اپنی زمینوں سے محروم کر دیا گیا ہوگا۔
یمن پر آج بھی بمباری جاری ہے۔کوئی بھی فریق جنگ بندی پر راضی نہیں ہے۔یمن کی خانہ جنگی کو سعودی عرب اور ایران نے اپنی پراکسی جنگ کی حیثیت دی ہے۔یمن کو اس خستہ حالی میں دھکیلنے کا الزام ایران اور سعودی عرب دونوں پر عائد ہوتا ہے۔ایران با وجود اس کے کہ داخلی طور پر زبردست انتشار کا شکار ہے لیکن ایران اپنی فرقہ وارانہ سوچ کی بنا پر شام ،عراق اور یمن میں برابر شریک رہ کے اپنی دولت ضائع کر رہا ہے۔یہ ممالک اپنی عوام کی خوشحالی کے برعکس شام اور یمن کی معصوم عوام کو بد سے بد حال کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔یمن کی خانہ جنگی 2014میں دارالخلافہ صناء پر ہوثی باغیوں کے قبضے اور صدر منصور ہادی کے استعفیٰ سے شروع ہوتی ہے۔اس خانہ جنگی میں روئٹرز کے مطابق ایران یمن میں شیعہ ہوثی باغیوں کے اقتدار کو پائدار بنانے اور میڈل ایسٹ میں سنی ممالک کی قوت کو متوازن کرنے کے لئے اپنے شیعہ گروہوں کی پشت پناہی اسلحہ اور فوجی مشیروں کے ذریعے کر رہا ہے۔سعودی عرب اپنے اتحادیوں کے ساتھ ہوثی باغیوں کے اثر و رسوخ کو ختم کرنے کے لئے فضائی حملے کر رہا ہے جس کی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ گھر سے بے گھر ہو چکے ہیں اور کئی لاکھ لوگ اپنی جانیں گنوا چکے ہیں ۔ایران اور سعودی عرب کی آپسی چپقلش کی سے آج یمن دنیا میں سب سے زیادہ غریب اور لاچار ملک بن چکاہے۔یمن میں 20لاکھ سے زائد بچے شدید بھوک کا شکار ہیں جس کی وجہ سے وہ بے شمار بیماریوں کی لپیٹ میں آچکے ہیں ۔میڈل ایسٹ متواتر پراکسی جنگوں اور خانہ جنگی کی وجہ سے غربت و افلاس کے پست ترین سطح پہ کھڑا ہے اور صحت کے بنیادی ڈھانچہ میں شدید کمزوری کے باعث بے شمار بیماریوں کی لپیٹ میں آچکا ہے ۔یمن اگر کرونا کی زد میں آتا ہے تو نہایت سنگین انسانی بحران پیدا ہوسکتا ہے جو میڈل ایسٹ سے نکل کر پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لے کر عالمی خانہ جنگی برپا کرنے کا قوی امکان رکھتا ہے۔ایک ملک بھارت ایسا بھی ہے جو کرونا کو مذاق کے طور پر لے رہا ہے اور برابر اپنی حماقت کا استعمال کرکے عوام کی خواہشات کو زبردستی دبانا چاہتا ہے ۔لوگ کورونا کی وجہ سے پریشان اور خوفزدہ ہیں لیکن یہاں کا حکمران طبقہ ابھی بھی فرقہ وارانہ سیاست کا کھیل کھیل رہا ہے۔یہ کس قبیل کی حماقت اور ذہنیت ہے کہ آج جب کہ پوری انسانیت ایک قدرتی آفت کے سامنے بالکل بے بس اور لاچار ہیں لیکن یہاں کا حکمران طبقہ کہیں جموں وکشمیر کو لے لیکر کچھ نہایت حساس فیصلے کر رہا ہے اور کہیں تبلیغی جماعت پر کیچڑ اچھال رہا ہے۔ان منفی رویوں اور بیانات کے بدلے اگر یہ لوگ کورونا کا مقابلہ کرنے کی سعی کرتے تو بجا تھا لیکن نہ جانے اس ملک کو کس راکشش کی نظر لگ چکی ہے۔بھارت نے حال ہی میں اسرائیل کے ساتھ 116میلین ڈالر ارمس ڈیل پر دستخط کئے جس کے تحت اسرائیل بھارت کو اسلحہ فراہم کرے گا۔بھارت کا اسرائیل کے ساتھ یہ معاہدہ ان حالات میں طے پایا ہے کہ جب کہ ملک کی1.3بیلین آبادی کورونا وائرس کے خطرے کی زد میں ہے۔حالانکہ بھارت کو کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے لئے بنیادی طبی سہولیات بہت کم وافر مقدار میں حاصل ہیں ۔ٹا ئمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق “بھارت میں ہیلتھ ورکرز بنیادی طبی حفاظتی سامان کی شدید قلت کا سامنا کرتے ہوئے کو ویڈ 19کا مقابلہ کرنے کے تناظر میں خطرناک قسم کی صورتحال سے دوچار ہیں”.دہلی یونیورسٹی کے سابق پروفیسر اچن وانیک نے بھارت کی اس ہٹ دھرمی پہ اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ”بھارت کو ابھی پیسوں کی ضرورت کورونا کی وبا کو بھارت کی گنجان آبادی والے جیسے شہروں اور قصبوں میں پھیلنے سےروکنے کے لئے تھی۔۔۔۔حالانکہ یہاں کا طبی نظام بہت حد تک معذور ہے ۔فنڈز کا اسلحہ خریدنے پر خرچ کرنا بہت تکلیف دہ ہے”۔بھارت میں اگر حفاظتی اقدامات نہیں اٹھائے گئے تو ماہرین کے مطابق 55فی صد آبادی کورونا کے انفیکشن سے متاثر ہو سکتی ہے ۔ان حفاظتی اقدامات کے بدلے کورونا سے مقابلہ کرنے کے لئے موت کے سب سے بڑے بے رحم تاجر اسرائیل کے ساتھ معاہدہ طے کرنا بھارت سرکار کی دلی خواہش تھی۔
یہ موت کے سوداگر اپنی تجارت میں مگن، اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے لئے معصوم عوام کا خون اپنی کرسیوں کو بچانے کے لئے حلال کر چکے ہیں ۔آج اس افراتفری کے ماحول میں بھی ان کی قساوت قلبی ان پر برابر غالب ہے ۔یہ لوگ کورونا وائرس سے بھی زیادہ خطرناک ہیں ۔کورونا وائرس انسان کو بچنے کا موقعہ فراہم کرتا ہے لیکن یہ موت کے سوداگر بغیر کوئی موقعہ فراہم کیے انسانوں کی جان لینے کے لئے تیار ہیں ۔