احساس پرویز
میرے ہم وطنو! یہ بات کسی سے ڈکی چھپی نہیں اور نہ کوئی شخص اس حقیقت کو جھٹلا سکتا ہےکیونکہ یہ سچ ہےکہ آج کل دنیا کے جو حالات بنے ہوئے ہیں اور کووڈ -19 کی صورت میں جو وبا, عالم انسانیت پہ نازل اور مسلط ہوا ہے اور جس نے اب تک ہزاروں انسانی جانوں کو اپنی آغوش میں لے لیا ہے اور لاکھوں کی تعداد میں انسانوں کو متاثر کیا ہے اور ہر گزرتے ہوئے لمحے کے ساتھ متاثرین اور مہلوکین کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے. یہ سلسلہ کب اور کدھر جا کر رُکے گا یہ ہم سب کے لئے سوال ہےاور اس کا جواب نہ آپ کے پاس ہے اور نہ میرے پاس ؟لیکن اس وبائی آفت سے چھٹکارا پانے کی دعا ہم اپنے پروردگار سے کر سکتے ہیں اس کے علاوہ جو بات ہم سب کے لئے قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ آفت کی اس گھڑی میں جب ساری دنیا… آپ اور میں….. اپنے اپنے گھروں میں محصور ہو کر بیٹھے ہیں اور کھا پی رہے ہیں لیکن کچھ لوگ جاگ رہے ہوتے ہیں اور شاید بھوکے بھی رہتے ہیں کبھی کبھی…… آپ کس نام سے اُن کو پکارو گے مجھے نہیں پتہ لیکن میں ان کو سُپر مین یا سُپر ہیروز ہی کہوں گا “کیونکہ باہر جو ہوا چل رہی ہے وہ زہریلی اور وبائی ہے اور اسے ہماری موت بھی واقع ہو سکتی ہے یا ہماری وجہ سے کئی موت کے منہ میں جا سکتے ہیں اور سوال جب زندگی اور موت کی ہو تو ترجیح زندگی کو ہی دی جاتی ہے” لیکن یہ جن کو میں نے سُپر مین اور سُپر ہیروز کہہ کر پکارا ہے وہ آپ اور میری خاطر, اپنوں کو اکیلے چھوڑ کر اور سب سے بڑی بات اپنی جان خطرے میں ڈال کر, ہماری اور آپ کی زندگی اور صحت کی حفاظت اسی طرح کر رہے ہیں جس طرح ایک سپاہی اپنے ملک کی سرحدوں کی کرتا ہے لیکن فرق یہ ہے کہ سپاہی کے پاس ہتھیار ہوتا ہے اور اس کا دشمن اس کے سامنے,, لیکن ہمارے اس سپر مین اور سپر ہیروز کے پاس نہ ہتھیار ہے اور نہ دشمن کی کوئی تصویر اور پھر بھی سینہ تان کے کھڑا ہے…. کیا آپ کا دل اور من آپ سے یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ ان سُپر ہیروز کو سلام کی جائے….. تالی اور ڈول کی تھاپ سے نہیں…..وہ بھی کیجئے اگر زندگی رہی…. لیکن ابھی وقت کا تقاضا کچھ اور ہے وہ یہ کہ ان کی آوازوں کو سنا جائے…. ان کے پیغامات اورہدایات کو اپنایا جائے اسے مزاق مت سمجھئے گا…. اسے انسانیت کی خدمت کرنے کا ایک موقع سمجھئے……. آپ غور کیجئے گا ان آوازوں پہ سچے دل اور من سے….. پھر دیکھئے آپ کو ان آوازوں میں میری طرح ایک ماں کی ممتا, ایک باپ کی شفقت, ایک دوست کی وفاداری, اورایک بیوی کی وہ محبت جو اُسے اپنے شوہر کے تئیں ہوتی ہے.سچ مانئے, یہ لوگ اس وقت, ہماری سوچ سے بھی زیادہ مخلص ہے ہمارے…..غم و الم کی اس گھڑی میں انھوں نے ہم سب کو اپنا پریوار بنایا ہے… یہ نہ رات کو سوتے ہیں اور نہ دن کو, کیونکہ اداسی کے اس عالم میں.,,خوف و دہشت کی ان فضاؤں میں اور دکھ کے ان بادلوں میں وہ یہی سوچ رہے ہیں کہ اگر یہ وبا جو ابھی یورپی ممالک کواپنا مسکن بنایا ہوا ہے اگر خدانخواستہ, یہ وبائی ہوا یہاں پھیل گئی تو یہاں قیامت سے پہلے قیامت آجائی گی کیونکہ چین, اٹلی, ایران, سپین اور امریکہ جیسے ممالک کا حال ان کے سامنے ہیں اور یہاں پہ یہ بات قابل زکر ہے کہ ان ممالک کے حفظان صحت کے ادارے ہمارے نام نہاد حفظان صحت کے اداروں اور محکموں سے سو فی صدی اور سینکڑوں سال آگے ہیں اور ہر گزرتے ہوئے لمحوں کے بعد ان ممالک سے جو خبریں الیکٹرانک, پرنٹ, اور سوشل میڈیا کے زرئعے ہم تک پہنچ رہی ہیں وہ دل کو دہلا کر چھوڑ دیتی ہیں اسی لئے ہرمنٹ, ہرلمحے ہمیں ہمیں میڑیا کے ہر زرائع سے یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ اپنے اپنے گھروں میں رہو,ایک دوسرے سے دور رہو اور ہر پندرہ منٹ بعد صابن سے ہاتھ دھو لیجئے. کیونکہ دشمن اگرچہ زرے سے بھی کم سائز کا ہے لیکن جان لیوا ہے اور دکھتا بھی نہیں…. لیکن اٹلی سے آنے والی تصویریں اور ویڑیوز visible ہیں ان کو دیکھ کر ہاے! ہاے! کرنے کے علاوہ غور بھی کیجئے… وہ بار بار ہمیں یہ پیغام دے رہی ہیں کہ یہ آفت ہے…. وبا ہے…. عزاب الٰہی ہے. یہ ہندو, مسلم, سکھ اور عیسائی نہیں دیکھتا ہے یوں سمجھیے یہ آگ اور سیلاب کی مانند ہیں……….!!! لہذا میرے ہم وطنو!! خطرے اور مصیبت کی اس گھڑی میں ہمیں یک جھٹ ہو کر اپنی اپنی جگہ اپنی زمہ داریوں کو نھبانا ہے تبھی ہم یہ جنگ جیت سکتے ہیں لیکن یاد رکھیے گا اس بات کو, حفظان صحت کے اداروں اور ہمارے ان جانباز سپر ہیروز کی جو ھدایات وقتاً فوقتاً ہمیں مل رہی ہیں اس پہ عمل کرنا ہماری زمہ داری اور فریضہ ہے کیونکہ اس میں ہماری اپنی اور انسانیت کی بھلائی ہے اور قرآن بھی کہتا ہے ہم سے.”جس نے ایک انسان کی زندگی بچائی, گو اُس نے پوری انسانیت کو زندگی دی “