شہباز رشید
ہاں ہاں میں خوش فہمی میں مبتلا تھا، کچھ زیادہ ہی جذباتی ہو گیاتھا، جی ہاں معصومیت کا اعزاز بھی دے چکا تھا، ترس کی لہروں نے ایک کونے میں سمیٹ دیا تھا، ہر لمحہ زبان پہ دعا نکل آتی تھی، خود بھی روتا اور رلانے کا ہنر بھی سیکھ لیا تھا، جی ہاں چند دنوں سے تو گوشہ نشین ہی ہو چکا تھا۔لیکن ہائے صد افسوس باہر نکلا تو دنیا اپنے اپنے مشاغل میں گم تھی، ظالم ظلم کی بھٹی کو گرما رہا تھا، جابر جبر کے شکنجے کس رہا تھا، متعصب تعصب کی آگ میں جل رہا تھا، کذاب جھوٹ کا چرچا کر رہا تھا،بے حیا عریانیت کی نمائش کر رہا تھا، بد چلن بدچلنی کے ادائیں سنوار رہا تھا، قمار باز قمار بازی کے چسکے لے رہا تھا ،بےنمازی نحوست کی نید سو رہا تھا ،جی ہاں سب دنیا میں مگن تھے۔گلی، کوچے، چوراہے دو راہے، گھر، قبرستان سب منور تھے۔دیوالی کا منظر تھا ہاں ہاں جناب مسلمانوں کی بستی میں۔تالی کے ساتھ تھالی بج رہی تھی اور کورونا بھاگ کورونا بھاگ کے مزاحیہ نعرے لگ رہے تھے۔مزے کی بات یہ ہے کہ ندوۃ جی ہاں ندوۃ العلماء علامہ شبلی ،سلیمان ندوی اور علی میاں کی میراث بھی موم بتیوں سے سجایا گیا تھا۔اور کیا کہوں جناب فیس بک پہ تو نظریں جمی تھی لیکن قرآن نگاہوں سے اوجھل تھا، انٹرنیٹ کی وجہ سے آنکھوں میں جلن تھی لیکن شرمندگی کے آنسوں سے خشک تھیں، ماتھا ہوا میں جھوم رہا تھا لیکن الله کے سامنے جھکنے سے قاصر تھا۔حد ہے اتنا بڑا قہر ہے، جی ہاں! مجھے اب یقین ہو رہا وبا نہیں ہے یہ قہر ہے، غصے کا اظہار ہےاور معصوموں اور مظلوموں کی مدد کے لئے بقول محترم ومکرم ملک صاحب ابابیل ہے یہ کورونا وائرس۔ عالم انسانیت کا ضمیر شام و فلسطین اور وادیِ خاموشاں کے معصوموں کی آہ و پکار سے جب جاگانہیں، بیواؤں اور یتیموں کی فریاد سے جاگا نہیں، بے گناہ قیدیوں کی چیخ و پکار سے جاگا نہیں، تو اللہ نے ایک چھوٹی سی مخلوق بھیج کر اس کے ضمیر کو بیدار ہونے کا ایک اور موقعہ دیا ہے۔صرف ضد تھی، تعصب تھا، ہٹ دھرمی تھی، نفرت کے شعلے تھے، جہالت کا سرکس تھا،تنگ نظری ہی تنگ نظری. سنتا کوئی نہیں، مانتا کوئی نہیں، نہ سمجھنے والا تھا اور نہ سمجھانے والا تھا، انا تھی، تکبر تھا، گردن اکڑی ہوئی تھی، آواز میں خودساختہ شیرینی تھی، جسم میں بناوٹی نزاکت تھی، ناچ گانے کی محفلیں تھیں، فضول کے سٹار تھے جی ہاں بے حیائی کو فروغ دینے والے ستارے کہلائے، کھیل کے میدان کے کھلاڑی نمونے کہلوائے حد تو یہ تھی کہ فحائشہ بھی ماڈل کا درجہ حاصل کر چکی تھیں بے رحم نوبل انعام برائے امن حاصل کر رہے تھے، ظالم اور بد اخلاق موٹیویشنل اسپیکر بن چکے تھے۔ہاں جناب موت و حیات کا مفہوم بدل چکا تھا، کامیابی اور ناکامی کا معیار بدل چکا تھا، امن اور ظلم کا تصور بدل چکا تھا، عشق و محبت کے مراکز بدل چکے تھے، ترقی اور پسماندگی کی تصویر بدل گئی تھی، خدا اور انسان کے تعلق کی نوعیت بدل دی گئی تھی۔سب کچھ الٹا ہورہا تھا۔جی ہاں! مخلوق خالق کو چیلنج کر رہی تھی ، اس کے فرامین کو روندا جارہا تھا، اس کے رسولؐ پہ کیچڑ اچھالی جارہی تھی، اس کے آخری ہدایت نامہ پہ شکوک کا اظہار کیا جارہا تھاصرف نافرمانی ہی نافرمانی تھی۔شام کی محفلیں، رات کے کی دعوتیں، بے حیائی کے میلے، حقوق کی پامالی، ارض اللہ کو قید خانہ، موت، قیامت اور آخرت سب مضحکہ خیز موضوعات تھے۔معاش، مادہ اور دنیا کے تصورات دل کی دھڑکن کے ساتھ دماغ کی ایک ایک رگ میں پلٹ رہے تھے۔خودنمائی کا جذبہ تھا، معروفیت کا نشہ تھا، شیخی کا بخار تھا اور منصب کا پرچار تھا۔عزت تقوی میں نہیں منصب میں تھی، شرافت کردار میں نہیں لباس میں تھی، اخلاق عمل میں نہیں بلکہ زبان میں تھا۔کورونا ایک موقعہ تھا کچھ کر گذرنے کا، قربت پانے کا، معرفت سے معزز ہونے کا، دل کو نرم کرنے کا اور اپنی ایک روحانی شخصیت تعمیر کرنے کا۔لیکن بدقسمتی سے منفی رویہ ہی ہماری خبر گیری کرتے ہوئے ہمیں رفاقت دے رہا ہے۔شیطانی وسوسوں کے اسیر ہم مسلسل بنتے چلے جا رہے ہیں ۔یہ کورونا روحانی زندان کے اسیروں کی رہائی کا پروانہ تھا لیکن بدقسمتی سے اسے مزید فکر دنیا کی شدتِ حرارت سے جھلسنے کا ذریعہ بنا دیا گیا ۔آزمائش میں تو صحابہ مضبوط و قوی ہوتے تھے، استغفار و توبہ کرتے تھے لیکن ہم ہیں کہ ثم قست قلوبکم من بعد فھی کاالھجارۃ او اشد قسوۃ کا نقشہ پیش کررہے ہیں ۔