Latest News Of Kashmir And Daily Newspaper

اخبار سے مایوسی ، دجال اور یاجوج ماجوج کا مشترکہ محاذ 

شہباز رشید


اخبار کھولتا ہوں تو کچھ بے دلی سے محسوس ہوتی ہے کیونکہ اخبار پہ مجھے خوبصورت الفاظ میں ڈھلے کذابوں کا کذب،لٹیروں کی لوٹ،متکبروں کا کبر ،فرعونوں کی فرعونیت،نمرودوں کی نمرودیت،بو جہلوں کی جاہلیت،حریصوں کا حرص ، ظالموں کا ظلم اورجابروں کی جابریت پڑھنے کو ملتی ہے۔بے چینی بھی ہوتی ہے کیونکہ مذکورہ منفی رویوں کا شکار امتِ مرحومہ ہے۔افسوس بھی ہوتا ہے کیونکہ ملی مسائل پہ تبصرہ غیروں کے اب  ہوا کرتے ہیں ۔اخبار کھولتے ہی دھڑکن تیز ہوتی ہے کیونکہ  اکثر بڑی خبریں ظلم و سفاکی اور قتل و غارت کے متعلق ہوتی ہے۔ظلم کہاں بہشت میں ،ظلم کہاں فلسطین مین ،ظلم کہاں  افغانستان میں ،ظلم کہاں شام میں ،ظلم کہاں عراق میں ،ظلم کہاں مصر میں ،ظلم کہاں لیبیا میں ،ظلم کہاں برما میں ،ظلم کہاں چین میں اور ظلم کہاں پوری مسلم دنیا میں ۔جہاں بھی دیکھیں ظلم کا شکار ہم ہیں ۔کہیں احمد ہے ،حامد ہے،عبداللہ ہے،سلمان ہے ہاں صرف  ہم مسلمان ہیں ۔اس لئے مجھے اب اخبار سے ڈر لگتا ہے۔اخبار میرے لئے ایک امتحان کا نتیجہ  ہے جس سے ہم روز بروز گذرتے جارہے ہیں۔اخبار میرے صبر کو پرکھنے کا ایک آلہ ہے جسے میں خود استعمال کرتا ہوں ۔اخبار میرے سکون کو چراتا ہے اورقلب کو مغموم کرتا ہے۔امت مرحومہ کے طول وبلد سے موصول ہونے والی رپورٹس مجھے باخبر تو ضرور کرتی ہیں لیکن مجھے خود سے بے خبر بھی کرتی ہیں ۔اخبار میرے حوصلوں کا پرچا ہے۔اخبار  ہمارے پھول جیسے بچے ،ہماری ابگین جیسی بہنیں ،ہمارے مستقبل کی امیدوں کو روندنے بس مسل کے رکھ دیے جانے کی داستان ہے۔اس امت کے لاکھوں بچوں سے مجبوراً جانوں کا نظرانہ پیش کروایا گیا،زندگی سے نفرت دلائی گئی، تقدیر کو برا بھلا کہلوایا گیا، مایوسیوں میں نہ جانے کیا کچھ کروایا گیا۔عراق پر آسمان گرایا گیا ،حلب کو زمیں بوس کیا گیا،فلسطین کو کاٹا گیا ،یمن کو تاراج کیاگیا اور امت کو مفلوج کردیا گیا۔اخبار پہ رپوٹنگ ہوئی، کور سٹوری، کالمز اور بیانات شائع ہوئے ۔لیکن یہ سب کچھ نہ جانے کس دنیا کے مناظر تھے۔کسی نے بھی خیال تک نہ کیا، اقدام تو دور کی بات قوی بیان تک نہ دیا ۔کتابیں لکھیں گئیں، فلسفے تراشے گئے، کارٹون بنائے گئے، ڈوکیومنٹریز تیار کی گئی،موویز بنائی گئیں اسطرح سے مظلوموں کی مظلومیت پر بھی لاکھوں کروڑوں کمایا گیا ۔ظلم کو روکنے کے لئے اصحابِ اثر ورسوخ اور ارباب اقتدار نے جنبش تک نہ کی۔انسانوں سے اس نظام باطل کو بدلنے کی توقع اب کم ہورہی ہے۔اخبار کے ساتھ میرے واٹسپ پہ بھی اگر مسیج آتا ہے تو یہاں مجھے پوری توقع ہوتی ہے کچھ برا ہوا ہو گا۔مجھے اس کا تجربہ اس ماہ صیام میں کافی اچھے سے ہوا ۔اب اخبار یا کسی اور سوتی سائٹ پہ اپنے خیالات کا اظہار کرنے سے بھی جب روک لیا جائے تو پھر مایوسی کے سوا اور کون سی چیز ہے جس سے اپنے آپ کو گوشی نشین کیا جائے ۔مجھے تو اخبار والے کہتے ہیں جناب اس درد کا کم اظہار کیا کریں جو آپ کیا کرتے ہیں کیونکہ ظلم اور ظالم کے لئے یہ درد اب ایک سر درد بن جاتا ہے۔کتنے ہی حضرات ہیں جو معاشرتی، اخلاقی، ادبی وغیرہ موضوعات پہ لکھتے ہیں ۔اب میرا بھی ان موضوعات پہ لکھنے سے کیا ہوگا۔اگر سچ کہوں تو میں اس اخباری دنیا سے اب اکتا گیا ہوں دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یارب کیا لطف انجمن ہو جب دل ہی بجھ گیا ہوجب آنکھوں پہ پٹی ڈالوائی جائے، لبوں کو سیل کر دیا جائے، کانوں میں روئی ٹھونس دی جائے، ہاتھوں میں ہتھکڑی باندھی جائےاور پیروں میں زنجیریں پہنائی جائیں تو ایک انسان کی حیثیت پھر باقی کیا رہتی ہے یہی ناکہ  وہ اب نابینا ہے، بہرہ ہے، گونگا ہے اور معذور ہے۔وہ دوسروں کے دست و کرم پر ہے۔اسے کہا جائے بیٹھ تو بیٹھ جاتا ہے، کہا جائے اٹھ تو کھڑا ہو جاتا ہے، کچھ منھ میں ڈال دیا جائے تو کھاتا ہے ورنہ بیچاراہمیشہ اپنی تقدیر پہ روتا رہے۔یہی حالت ہے آج کی صحافت کا۔ایک نابینا، بہر گونگے اور معذور شخص سے آپ کیا توقع کر سکتے ہیں کہ وہ انقلاب کی نوعید بن سکتا ہے۔اسی قسم کا انسان جدید تہذیب ،جدید نفرت  اور جدید جاہلیت کے علمبردار تیار کرنا چاہتے ہیں ۔گذشتہ صدی کے اوائل میں پوری  دنیا کو مغرب کی جدید تہذیب سے خطرہ تھا لیکن اب مشرق کی قدیم جہالت سے اس سے بھی بھیانک خطرہ درپیش ہے۔جہاں جانوروں سے بھی بدتر ہو کر انسانیت کا ایک منحوس طبقہ ملت  اور انسانیت کے کمزور طبقات کو نوچنے کے لئے منتظر ہے۔اس منحوس طبقہ کی سیاست، عدالت اور صحافت سے صرف بوئے خون آتی ہے۔جیسے کہا جاتا دجال کے ظہور سے پہلے اس کا سایہ پوری دنیا پہ مغرب کی صورت میں پڑ چکا ہے میں سمجھتا ہوں یہ مشرقی طبقہ یاجوج ماجوج کا سائہ ہے جو پوری دنیا پہ پڑ رہا ہے۔دجال اور یاجوج ماجوج کے ان ایجنٹوں کا مشترکہ محاذ اس دنیا کو لا محالہ ایک گہری کھائی میں جھونک دینے والا ہے۔جس قوم کو مٹنا ہوتا ہے وہ وعظ و نصیحت اور معجزات سے بھی باز نہیں آتی وہ  صرف اپنی تباہی کی صورت میں باز آتی ہے کیونکہ وہ قوم روحانی طور شدید ڈپرشن کا شکار ہوئی ہوتی ہے۔جس کے نتیجے میں وہ اپنے اعمالِ بد کے ذریعے مثلِ خوکشی اپنے آپ کو موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے۔جیسے ایک شخص اپنے نفسیاتی تناو کی وجہ سے خود کشی کرنے کا ارادہ کرکے اپنے آپ کو اس عذاب سے چھٹکارا دلانا چاہتا ہے ویسے ہی یہ دجال اور یاجوج ماجوج کے ایجنٹ عنقریب اپنی  ظالمانہ رویوں کے باعث خود کو تباہی کی آگ میں ڈال کر خود کشی کرنا چاہتے ہیں ۔دیارِ مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہےکھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہ اب زرِ کم عیار ہو گاتمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کُشی کرے گیجو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائدار ہو گادنیا کو پہلے مغرب کے دجال کے مکرو فریب کا سامنا کرنا تھا لیکن اب مشرق کے یاجوج ماجوج کی درندگی اور جہالت کا سامنا بھی کرنا ہے۔ہم نے یہ بھی بزرگوں سے سنا ہے کہ جب ایک احمق انسان فیصلہ کرتا ہے تو وہ اپنی اوقات کو یکسر بھول جاتا ہے، جب وہ حکومت کرتا ہے تو اپنی کمزوری کو بھول جاتا ہے اور جب وہ چلتا ہے تو اپنی حقیقی معذوری کو نظر انداز کرتا ہے جس کے نتیجے میں اسے ناکامی، شکست اور تباہی کا سامنا لا محالہ کرنا پڑتا ہے۔جیسے گیدڑ کے گلے سے کبھی شیر کی گرج، کتے کے بدن میں کبھی شیر کی طاقت اور بھیڑ کے جسم میں کبھی چیتے کی فرتی پیدا نہیں ہو سکتی اسی طرح یاجوج و ماجوج کے ان ایجنٹوں سے یہ سوائے گدھے کا انداز، لومڑی کی چالاکی اور کتے کی بھونک کے علاوہ کچھ بھی پیدا نہیں ہو سکتا۔مشرق کے یاجوج ماجوج اور مغرب کے دجال کا مقابلہ صرف ملت اسلامیہ کر سکتی ہے کیونکہ اس کو مثلِ شیر مقید تو کیا گیا ہے لیکن شیر کی اوصاف و صفات سے یہ عاری نہیں ہو سکتی۔یہ ملت توبہ، ارادہ، سچائی، فرمانبرداری ،پاکدامنی، غیرت و حمیت کے ہھتیار سے لیس ہو کر اس دنیا کو بچا سکتی ہے۔لیکن بدقسمتی سے ملک صاحب کے الفاظ میں ہم”پچھلے چنددنوں سے لاک ڈا ؤ ن کی نرمی کے بعد بازاروں، شاپنگ پلازوں،مارکیٹوں میں پاگل پن کی حدتک انہی افرادکابے ہنگم رش دیکھتاہوں تویقین نہیں آتاکہ یہ سب وہی لوگ ہیں جوکچھ دن پہلے بھوک سے مررہے تھے ،آج ہزاروں لاکھوں کی خریداری میں مصروف ہیں”کا منظر پیش کر رہے ہیں ۔ہمیں کوئی ٹس سے مس نہیں بس یہی ہے کہ اپنی اپنی ذاتی زندگی کو مادی طو پر خوشنما بنانے کو کامیابی سمجھ رہے ہیں ۔ہم منصب کی قدر کرتے ہیں ناکہ اوصاف کی۔ہم عبا قبا کی قدر کرتے ہیں ناکہ تقوی کی۔ہم دنیاداروں کے ہاں اپنا اثرو رسوخ قائم کرنے میں لگے ہیں ناکہ الله کے دربار میں ۔کب ہم اپنی اڑان زمین سے موڑ کر آسمان کی جانب کریں ۔