Latest News Of Kashmir And Daily Newspaper

سقوطِ امریکہ متوقع

شہباز رشید بہورو

جہاں کورونا وائرس نے ہر ملک کو اپنے پنجے میں دبوچ لیا ہے وہیں امریکہ جیسا طاقتور ملک بھی اس ناقابلِ دید وائرس کی قہرناکی کا شکار ہے ۔امریکہ میں اب تک روئٹرز کے مطابق 8لاکھ سے زائد کورونا مثبت کیس درج کئے گئے ہیں جن میں 45ہزار سے زائد کی موت ہو چکی ہے ۔امریکہ میں کورونا کی وجہ سے ایک زبردست بحران پیدا ہو چکا ہے۔عوامی صحت کے مزید بگڑنے کے ساتھ ساتھ ملک کی معاشی صورتحال بھی کافی کربناک ہے ہزاروں کی تعداد میں لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں۔اطلاعات کے مطابق امریکہ میں 17میلین لوگوں نےکورونا کی وجہ بےروزگاری معاوضہ حاصل کرنے کی حکومت سے درخواست کی ہے۔معاشی بحران کے ساتھ ساتھ امریکہ میں سیاسی بحران بھی سینگ ظاہر کرنے لگا ہے۔میچیگن کانزرویٹیو کولیشن کی سربراہی میں ترتیب دیا گیا “اوپریشن گریڈلوک”نام سے موسوم کیا گیا احتجاج امریکہ میں اندر ہی اندر ایک سنگین سیاسی آتش فشاں کے پکنے کی علامت ہے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرنپ کےمتواتر جنونی پن اور احمقانہ حرکات وسکنات کی وجہ سے سیاسی حلقوں میں ہلچل پیدا ہو چکی ہے۔روئٹرس کے مطابق امریکہ میں کورونا وائرس، صدر اور ریاستوں کے مابین بگڑتے تعلقات کی وجہ سے گریٹ امریکن بریک اپ کا خدشہ ہے۔اس بریک اپ کا آغاز کورونا وائرس کو لیتے ہوئے ٹرنپ کی سرد مہری، عندیہ بازی اور اب ریاستوں کا کچھ خودمختار اقدامات اٹھائے جانے سے ہو رہا ہے۔ڈونالڈ ٹرنپ نے امریکہ میں کورونا کے بڑھتے ہوئے قہر کو روکنے میں خود کی نااہلی کو میڈیا اور عالمی ادارہ صحت پر الزام عائد کر کے چھپانے کی کوشش کی ہے۔عالمی ادارہ صحت کو ٹرنپ نے امریکی فنڈنگ سے محروم کردینے کا فیصلہ کیا ہے جس کے نتیجے میں ٹرنپ کو کئی ممالک کے سربراہان کی تنقید کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے۔ٹرنپ کے اس انقطاعِ امداد کے فیصلے کا گہرا اثر عالمی ادارہ صحت کی کارکردگی پر پڑ سکتا ہے ۔یاد رہے کہ امریکی امداد عالمی ادارہ صحت کے مرکزی بجٹ کا40 فی صد حصہ ہے۔روئٹرز کےمطابق امریکہ میں ریاستیں مرکز سے علیحدہ ہو کر پابندیاں لگانے اور ہٹانے کا فیصلہ کر رہی ہیں .اس سے ڈونالڈ ٹرنپ نے ریاستوں پر امریکہ سے علیحدہ ہونے کا الزام عائد کرنے کے ساتھ ساتھ دھمکی بھی دی ہے۔ٹرنپ نے اپنے ایک حالیہ ٹیویٹ میں لکھا تھا “ڈیموکریٹ گورنرس کو بتا دیں کہ میوٹینی آن دی بونٹی میری پسندیدہ مووی تھی “جس کا حوالہ ٹرنپ نے فلم میں سفاک کیپٹن ویلیم بلئی کا کردار ظاہر کرنے کے لئے دیا ۔ٹرنپ نے علاوہ بریں نیویارک کے گورنر پر بھی طنز کرتے ہوئے کہا “اچھا وہ آزادی چاہتا ہے جو کبھی بھی نہیں ہو سکتا ہے”.اٹلانٹک میگزین سے وابسطہ پیٹر وہنر نے اپنے مضمون بعنوان “ٹرنپ کی صدارت ختم ہے “میں لکھا ہے کہ؛
امریکی قوم ٹرنپ کو ایک تماشائی کے طور پر دیکھتی ہے جبکہ ملک کے کئی پبلک اور پرائویٹ سیکٹر سے منسلک ذمہ داران نے صدر سے کوئی بھی ہدایت لئیے بغیر ہی ذاتی طور پر اپنے متعلقہ شعبوں میں لاک ڈاؤن نافذ کیا ہے اسطرح سے گویا نیویارک ٹائمز کے پیٹر بیکر اور میگی ہیبرمان کے الفاظ ‘ٹرنپ ہماری نگاہوں کے سامنے سکڑ رہا ہے’کی تصدیق ہو رہی ہے۔”
المختصر یہ کہ امریکہ میں داخلی طور پر سوشو پولیٹکل انتشار پیدا ہو چکا ہے۔جس انتشار کی وجہ سے امریکہ میں نظام مملکت کمزور پڑ رہا ہے ۔لوگ گھروں سے باہر نکل کر لوک ڈاؤن ہٹانے کا احتجاج کر رہے ہیں اور ان کا باہر آنا بھی بجا ہے کیونکہ جو قوم اپنا سارا وقت کلبوں ،ہوٹلوں،اور عیاشی کے مراکز پر گذارتی ہو وہ کیسے آج اس قید کو برداشت کر سکتی ہے۔جس قوم نے اپنی صنفی جذبات کو پہلے ہی سے بے قابو کر لیا ہو وہ آج کیسے اپنے شہوانی جذبات کے طوفان کا مقابلہ کر سکتی ہے۔امریکہ میں کورونا کے بہت تیزی کے ساتھ پھیلنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لوگ اپنے آپ پر قابو نہ رکھ پانے کی وجہ سے زبردستی باہر نکل آرہے ہیں۔لاک ڈاؤن کی وجہ سے امریکی معاشرے میں سائکلوجیکل ڈپریشن تیزی سے بڑھ رہا ہے۔اطلاعات کے مطابق گھروں میں میاں بیوی کے درمیان جھگڑوں کی واردات میں دن بہ دن مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔صدر ٹرنپ کا دوسری بار وائٹ ہوس میں فرعون کی گدی پر بیٹھنا محال معلوم ہو رہا ہے جس کا ادراک خود ٹرنپ کو بھی ہوچکا ہے۔اس اندرونی ایمرجنسی کے حالات میں ٹرنپ کا دوسری مرتبہ صدر بننے کا لالچ اور خواب اس کو کوئی ایسی اسٹریٹیجی اپنانے کے لئے اکسا رہی ہے جس سے اس کا دوسری مرتبہ صدر بننا یقینی ہو جائے ۔اس مقصد کے لئے صدر ٹرنپ اپنے پیش رو فرعونوں کی روایت پر عمل پیرا رہا بھی اور مزید رہنے کا ارادہ کرچکا ہے۔صدر بش اور بارک اوبامہ کی طرح صدر ٹرنپ بھی اپنی ظالمانہ اور سفاکانہ جنگیں جاری رکھتے ہوئے پریذیڈنٹ آف وار بننا چاہتا ہے۔پیش رو فرعونوں نے بھی مظلوموں کا خون بہا بہا کے اپنے آپ کو دوسری مرتبہ صدر بننے کا اہل ثابت کیا تھا ۔ٹھیک اسی نہج پر ٹرنپ بھی چل رہا ہے۔
ایران پر عائد کردہ پابندی کو امریکہ نے کورونا کی اس تباہی کے درمیان بھی نہ ہٹانے کا فیصلہ کیا۔ایرانی وذارات صحت کے مطابق ایران میں ہر دس منٹ میں ایک آدمی کورونا کی وجہ سے مر رہا ہے اور ایک گھنٹے میں پچاس لوگ کورونا سے متاثر ہو رہے ہیں ۔گذشتہ ماہ سفاک امریکہ نے واضح الفاظ میں ایران کو یہ دھمکی دی کہ ایران کو کورونا وائرس کی وبا امریکی پابندیوں سے نہیں بچا سکتی ہے۔اس کے علاوہ امریکہ اسرائیل اور عرب امارات کے ساتھ مل کر مشترکہ فوجی مشق بھی کرنے جارہا ہے۔یہ فوجی مشقیں کورونا کے تناظر میں عائدکردہ عالمی پابندی کو نظر انداز کرتے ہوئے انجام دی جائیں گیں۔امریکہ اپنی کسی بھی جنگی مہم سے باز آنے والا نہیں ہے۔کولمبیا یونیورسٹی نیویارک کے پروفیسر جوسف مساد لکھتے ہیں “کورونا وائرس کی اس عالمی وبا کو امریکی امپیریل پالیسی عراق، ایران، وینیزولا اور نیکارگوا میں اپنے دشمنوں کو مارنے کے لئے ایک موقعہ کے طور پر استعمال کرے گا”۔امریکہ اپنی ان جنگی پالیسیوں کی وجہ سے اندرونی طور پر زبردست سیاسی و معاشی ہنگامے کا شکار ہو چکا ہے۔میں نے اپنے حالیہ مضمون بعنوان “موت کے سوداگر اور کورونا وائرس “میں مختصراً اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ امریکہ اپنی ساری توجہ اپنی جنگی مہم پہ مرتکز کئے ہوئے ہے جس کے نتیجہ میں آج امریکہ کو کوئڈ کا مقابلہ کرنے میں بے نیل مرام پسپا ہونا پڑ رہا ہے۔آسٹرلیا کے سابق صدر کوین رڈ نے لکھا تھا ” یہ عالمی بحران حقیقتاً سیاسی لیڈروں اور اداروں کی حقیقت کھول کر رکھ دیتے ہیں “۔ان کی بات بڑی حد تک صحیح ہے کیونکہ صدر ٹرنپ کورونا سے پہلے جو دعوے کر رہا تھا وہ سب کھوکھلے نکلے۔اسی طرح اس عالمی وبا نے دنیا کے نام نہاد عالمی اداروں کی بھی پول کھول کے رکھ دی ہے جو مختلف مسائل کے نام پر دنیا کے ممالک سے ڈونیشنس وصول کرتے تھے لیکن آج کچھ کرنے کے بدلے اپنی خستہ حالی بیان کر رہے ہیں ۔یہ خدائی قہر ضرور سفاکیت اور جابریت کا خاتمہ کر کے رہے گی۔
امریکہ جس فرعونیت، نمرودیت اور چنگیزیت کا کردار سو سال سے ادا کرتا آرہا ہے اس کا خمیازہ تو اسے اس کے خاتمے کے علاوہ اور کسی صورت میں نہیں اٹھانا ہوگا۔جس طرح سے یو۔ایس۔ایس ۔آر کا خاتمہ اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہو کر ہوا تھا بعید نہیں امریکہ بھی اس آفت کی گرفت میں آسکتا ہے۔یہ تاریخی حقیقت ہے کہ طاقتور سلطنتیں جب اندرونی طور پر بغاوتوں کی دھیمک سے کمزور ہوتی ہیں تو اپنا نقشہ کرہ ارض پر بکھیر کر معدوم ہو جاتی ہیں ۔امریکہ میں داخلی طور اس قسم کا رویہ ابھر رہا ہے ۔نتیجہ برآمد ہونے میں ہمیشہ وقت لگتا ہے ۔اس دنیا میں جہاں پر مادی اسباب کا رول ہے وہیں اخلاقی علل و اسباب بھی اپنا کردار نبھانے کا خداداد حق رکھتے ہیں۔امریکہ اپنی سفاکانہ کردار کے باعث ایام نداولھا بین الناس اور ولو لا دفع اللہ الناس بعضھم علی بعض کے خدائی قانون کے نفاذ کا مستحق ہو چکا ہے۔

امریکہ اپنی بیرونی تعلقات کے معاملے میں بھی ناکام دکھائی دے رہا ہے۔امریکہ نے ایک طرف دنیا کے بیشتر ممالک کو اپنے خلاف کر لیا ہے اور دوسری طرف اپنی نااہلی کی وجہ سے ٹرنپ نے امریکی عوام کا اعتماد کھو دیا ہے۔امریکہ کی امریکہ فسٹ پالیسی کو کورونا نے مزید بے نقاب کیا ہے۔کورونا سے پیدا شدہ نازک حالات میں ٹرنپ نے عالمی برادری سے اتحاد اور اتفاق کرنے کے بجائے ان کو ہی اپنی ناکامی کی وجہ قرار دیا۔امریکہ نے ہر معاملے میں اپنی خودغرضی، یونیلیٹرلازم، تحفظ پسندی اور آئسولیشنزم کی وجہ سے عالمی برادری کے اصول و ضوابط کی دھجیاں اڑائیں۔تجارت، تحفظ، ماحولیاتی آلودگی، گلوبل وارمنگ وغیرہ جیسے اہم مسائل سے اپنے آپ کو ہر قسم کی پابندی سے آزاد رکھا۔اس مناسبت سے دی آٹلانٹک کے ایک مضمون کے مطابق امریکہ نے اپنی ان منفی پالیسیوں کی وجہ سے دوسرے ممالک کو بھی خودغرضی کا درس دیا ہے؛ “امریکی صدر کی یک پہلویت نے دوسرے ممالک کو خودغرضانہ اقدامات اٹھانے کی شہہ دی ہے۔یوروپین کمیشن نے کورونا سے متعلق ادویات اور سازوسامان دوسرے ممالک کو فراہم کرنے سے منع کیا ہے “.الغرض امریکہ دنیا میں اپنی چودھراہٹ کا رعب آہستہ آہستہ کھو رہا ہے اور ایسا ہی ہونا اس کے مقدر میں ہے ۔کورونا وائرس نے امریکہ کے تمام جھوٹے دعوؤں کو بے نقاب کر کے اس کی احساسِ برتری کے بیلون یا غبارہ سے ہوا لیک کر دی ہے اور اب یہ سکڑتے سکڑتے اپنی آخری لمحات کے قریب آپہنچا ہے۔کورونا نے امریکہ کی گلوبل لیڈرشپ پہ بھی شب خون مار کر اسے اس منصب سے ہٹانے کی زوردار کوشش کی ہے۔اس بار کورونا وائرس کے متعلق امریکہ کے بدلے فرانس اور عرب امارات نے گروپ 7 (G7) اور گروپ 20(G20)کے اجلاس کو طلب کیا ۔یہ شفٹ ایک خاص عالمی رویہ کی نشاندہی کر رہا ہے کہ اب مغربی ممالک بھی امریکہ کی نقل کرتے ہوئے عالمی چودھراہٹ کی پگڑی پہننے کے لئے امریکہ کو نظر انداز کر رہے ہیں ۔امریکہ ٹرنپ کی سربراہی میں عنقریب ایک گہری کھائی میں گرنے والا ہے۔ماہرین کا ماننا ہے اگر ٹرنپ پھر دوبارہ سے وائٹ ہوس کی فرعونی گدی پر براجمان ہوتا ہے تو پوسٹ کویڈ ورلڈ میں ایک خطرناک قسم کا جنگل راج قائم ہوگا۔میرا یقین ہے کہ مغرب کی بالادستی اب ختم ہونے والی ہے اور ایک نیا دور اس دنیا میں شروع ہونے جارہا ہے ۔جس پر آئندہ گفتگو کرنے کا ارادہ ہے انشاءاللہ

دیارِ مغرب کے رہنے والو،خدا کی بستی دکان نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہ اب زرِ کم عیار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کریگی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا نا پایئدار ہوگا