Latest News Of Kashmir And Daily Newspaper

گلے ملنا تو دور کی بات…عید پر ہاتھ ملانا بھی ممکن نہیں
خریداری سے قبل سینی ٹائزر اور ماسک کا استعمال پہلی ترجیح، کورونا نے طرز زندگی ہی بدل کر رکھ دی

اشفاق سعید
سرینگر //برسوں سے ایسی کوئی عید نہیں گزری ہوگی جب مسلمان ایک دوسرے کو گلے لگائے نہ مصافہ کریں،لیکن اس بار عید ایسی ہی ہوگی۔کیونکہ کورونا نے لوگوں کی طرز زندگی ہی بدل دی ہے۔گھر سے باہر نکلیں تو ایسے لگتا ہے کہ زندگی دائروں میں سمٹ کر رہ گئی ہے۔ہر سال عید سے دو چار روز قبل بازاروں میں خریداروں کا بھاری رش دیکھنے کو ملتا تھا لیکن اس بار کورونا کی وباء نے لوگوں کو گھروں تک ہی محصور کردیا ہے۔احتیاطی تدابیر کے طور پر جہاں سماجی دوریاں قائم کرنے کے ساتھ ساتھ ، ماسک اور سینی ٹائزر کا استعمال عام ہوگیا ہے اور زندگی بھی گھروں کی چار دیواری میں قید ہوکر رہ گئی ہے ۔بازار کم و بیش بند ہیں اس لئے لوگوں کا رش دور دور تک کہیں دکھائی نہیں دے رہا ہے۔لوگوں کی پہلی ترجیح ماسک اور سینی ٹائزر کی خریداری ہے۔ایک اندازے کے مطابق 70فیصد لوگ ایسے ہیں جو ماسک کا استعمال کر رہے ہیں جبکہ40فیصد لوگ سینی ٹائزر کا استعمال کر رہے ہیں۔مارکیٹ میں زیادہ تردکانیں تو بند ہی پڑی ہیں لیکن اشیائے ضروریہ والی دکانوں پر جانے والوں کو پہلے دائروں میں ٹھہرناپڑتاہے ،اسی طرح سے اے ٹی ایمز کے باہر بھی سماجی دوریوں کو برقرار رکھنے کیلئے دائرے بنائے گئے ہیں۔ ۔ہر انسان اس قدر صفائی پسند ہوگیاہے کہ صبح سے شام تک درجنوں مرتبہ صابن سے ہاتھ دھورہاہے اور ایسے لوگ بھی ہاتھوں کی صفائی میں لگے ہوئے ہیں جو صابن کا کبھی استعمال ہی نہیں کرتے تھے ۔یہی نہیں بلکہ خواتین کھانے پکاتے وقت انتہائی احتیاط سے کام لے رہی ہیں اور کئی خواتین دستانے وغیرہ کا استعمال بھی کرتی ہیں۔کئی معالجین نے کشمیر عظمیٰ کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ اس مرض کو تب تک روکا نہیں جا سکتا جب تک انسان از خود محکمہ ہیلتھ کی جانب سے جاری کی گئی ہدایات پر عمل پیرا نہیںہوتا ۔لوگ ہدایت پر عمل کرتے کرتے اب اپنی طرز زندگی ہی بدل چکے ہیں،کوئی کسی سے ہاتھ نہیں ملا رہا ہے ،گلے لگانا تو دور کی بات ہے، اپنے اپنوں سے بھی دو قدم دور رہ کر بات کرتے ہیں ۔عید پر مساجد بندہیں ،درگاہوں اور خانقاہوں پر جانے کی پابندی ہے ۔نجی کلینک بند ہیں، اب مریضوں کی طبی جانچ آن لائن ہورہی ہے ۔کشمیر کے ایک معروف معالج ڈاکٹر نذیر مشتاق کہتے ہیں کہ سب کو احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا چاہئے اور بلا وجہ ادویات کھانے کے بجائے معالج سے رابطہ قائم کرنا چاہئے ۔انہوں نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ انہوں نے اپنا فون نمبر فیس بک پر شیئر کیا ہے جس کے بعد ابھی تک 400 افراد نے ان سے بات کرکے ادویات لکھوائی ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ عالمی ادارہ صحت نے گھروں میں رہنے کو کہا ہے لیکن لوگوں کو خدمت آن لائن ہی انجام دی جانی چاہئیں ۔ اسی طرح کئی ایک ڈاکٹروں نے بھی لوگوں کو بیماریوں سے متعلق جانکاریاں فراہم کرنے کیلئے آن لائن اکاونٹ کھولے ہیں۔اسی طرح بچوںکے لئے محکمہ ایجوکیشن نے کلاسز بھی آن لائن شروع کر دی ہیں ۔