Latest News Of Kashmir And Daily Newspaper

آنسوں بہائیں تو کیوں؟

شہباز رشید بہورو


آنسوں بہائیں تو کیوں، لب تھر تھرائیں تو کیوں، قلب کو غم میں ڈوبائیں تو کیوں، تنہائی میں ہا تھ پھیلائیں تو کیوں؟ اسی لئے نا کہ بدن میں درد ہو تکلیف ہو ،تجارت میں نقصان ہوا ہو، مال و متاع چھن گیا ہو یا اولاد جدا ہوئی ہو۔لوگ اکثر انھیں وجوہات کی بنا پر روتے ہیں، واویلا کرتے ہیں اور خدا کے سامنے دستِ سوال بلند کرتے ہیں ۔ٹھیک ہے آنسوں بہانے سے درد و تکلیف میں اور غم و پریشانی میں ہلکان محسوس ہوتی ہے۔اگر رونے ،آنسوں بہانے اور خدا کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے انسان کے غم کی شدت کم ہو لیکن اسے لطف نہ آئے ،کیف و سرور سے مسرورو نہ ہو، اس کے لئے معرفت و قربت کے دروازے نہ کھلیں,روحانی حریت محسوس نہ ہو تو پھر یہ سب کچھ اپنی ذات سے وابسطہ اور منسلک رہنے کا نتیجہ ہے۔ہر چیز کا اپنا مزہ ہوتا ہے۔کھانے پینے کی اشیاء کا اپنا مزہ ہے، قدرتی مناظر کا مشاہدہ اپنا لطف رکھتا ہے، خوشی کی اپنی تاثیر ہوتی ہے اور غمی کا بھی اپنا مزہ ہوتا ہے۔اگر غم و فکر صرف مادی قفس میں محبوس ہونے کے نتیجے میں پیدا ہوا ہو تو اس سے وہ ماوارئی لطف کا سرا ہاتھ نہیں آتا کہ جس کو محسوس کرنے سے آنے والی نسلیں بھی اپنا فراموش شدہ فریضہ یاد رکھتی ہیں۔علامہ اقبالؒ کے غم کی یہی کیفیت تھی کہ جب آپ افغانستان کے سفر پر گئے تو دورانِ سفر اس طرح روئے کہ راوی کہتا ہے جیسے ایک چھوٹا بچہ روتا ہے ،استفسار کرنے پر علامہ صاحب نے فرمایا مجھے اس امت کاغم رلا رہاہے ۔علامہ صاحب کے کلام کو پڑھ کے ویسا لطف اسی لئے تو حاصل ہوتا ہے کہ جس سے قاری کبھی اندلس، کبھی غرناطہ، کبھی ستاروں پہ اور کبھی کہکشاؤں میں اپنے آپ کو محسوس کرتا ہے، یہی تو وجہ ہے کبھی قاری اپنے آپ کو الله کے حضور شکوہ کرنے کی جرات محسوس کرتا ہے اور پھر اپنے رب سے جلالی جواب سماعت کرنے کے لئے دربارِ الہی کے سامعین میں شامل ہوتا ہے۔
اس امت سے وابسطہ رکھ کے رونا،آنسوں بہانا،قلم کی سیاہی سے صفحہ قرطاس رنگنا،زبان چلانا،تگ و دو کرنا اپنی ایک غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے،ایک مومن کو اس دنیا میں جینے کی مقصدیت محسوس ہوتی ہے ،اسے دائمی خوشی حاصل ہوتی ہے اور اسے اپنی منزل کی طرف گامزن رہنے سے دنیا کی کوئی بھی مادی رکاوٹ روک نہیں پاتی۔اگر غم صرف اپنی ذات سے وابسطہ رکھ کے پیدا ہوا ہو تو اس میں وہ نشاط و سرور نہیں جو امت مرحومہ کے مجروح جسم کو دیکھ کے تکلیف و غم محسوس کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔امتِ مرحومہ سے جڑے فکر و غم کے نتیجے میں آنسوں قطرے نہیں موتی ہوتے ہیں، آہیں سسکیاں نہیں مقبول دعائیں ہوتی ہیں،قلم قلم نہیں تحریک ہوتا ہے، الفاظ الفاظ نہیں نشتر ہوتے ہیں،قدم قدم نہیں انقلاب ہوتا ہے اور مسلم مسلم نہیں مردِ مومن ہوتا ہے۔

میری امت مجروح ہے، ہر طرف اجڑے آشیانے ہیں، ویران بستیاں ہیں، بھوک سے نڈھال بچے ہیں، بیماریوں سے زرد چہرے ہیں، پسلیاں نکلے ہوئے ہوئے جسم ہیں، عزت لٹ رہی ہے، ہر طرف چیخ و پکار ہے، آنسوں بہہ رہے ہیں ۔ہاں ہاں یہی مناظر ہیں، یہی احوال ہیں، یہی صورتیں ہیں، یہی تصاویر ہیں ۔محسوس ہوتا ہے میرا جسم مجروح ہے، نڈھال ہے، بے حال ہے، درد و کرب میں ہے، غم و الم میں ہے۔شام یاد آتا ہے، فلسطین یاد آتا ہے، یمن یاد آتا ہے، راکھیئن یاد آتا ہے، بوسنیا یاد آتا ہے، افغانستان یاد آتا ہے، مصر یاد آتا ہے، عراق یاد آتا ہے اپنا ہر مظلوم وطن یاد آتا ہے۔ظلم کی ایک ایک دردناک تاریخ ہے، دہشت کےبیاباں ہیں ،مفرور گھرانوں کے ویرانے ہیں، ہنستے کھلتے چہروں کی صرف یادیں ہیں، بچے ہوئے لوگوں کی آہیں اور سسکیاں ہیں ۔میرا وطن پوری امت ہے! میں نہیں مانتا کہ میرا ایک خاص وطن ہے۔میرا وطن ،میرا چمن میرا مسکن پوری امت ہے۔سمجھیں ہم زرا ! بارونق تھے جو کبھی آج وہ بے رونق ہیں، پر کیف تھے جو کبھی آج وہ بےکیف ہیں، مقیم تھے جو کبھی اپنے وطن میں آج وہ غیروں کی سرزمینوں پہ بے یارو مددگار ہیں، جو کبھی اپنے اہل خانہ کے ساتھ تھے وہ آج لٹےہوئے قافلوں کے ہمراہ ہیں۔آج عقوبت خانے، جیل خانے، مسکین خانے، یتیم خانے،پناہ گزینوں کے کیمپ ہمارے لٹے ہوئے خاندانوں سے آباد ہیں۔وہ معصوم بچے، پھول جیسی کلیاں اپنی ڈوبتی ہوئی آنکھوں میں صرف آنسوں بھرے ہوئے، اپنے نازک ہاتھوں پہ گھٹے پڑے ہوئے، پیوند سے سیئے ہوئے لباس میں ملبوس، سردی سے سکڑتے ہوئے محمد بن قاسم اور صلاح الدین ایوبی کے انتظار میں ہیں۔سمندر کے کنارے بے یارو مددگار ہے اس امت کا شباب اور افتخار ،سامنے سمندر کی لہریں ہیں اور پشت پر دستِ ظالم۔کیا یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد بھی ہمارے دل میں نرمی پیدا نہ ہو، آنکھوں سے آنسوں جاری نہ ہوں، خود غرضی کے مرض سے چھٹکارا نہ پائیں، عیاشی سے دستبردار نہ ہوں، تکبر کے تاج کو نہ اتار پھنکیں،رب کے سامنے سر بسجود نہ ہوں، اس کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائیں، عمل کا جذبہ پیدا نہ کریں، سستی سے اپنا دامن نہ چھڑائیں، سچ کا ساتھ نہ دیں، خواہ مخواہ کی دل بھلائی سے آزاد نہ ہوں، حق کا اعلان نہ کریں، اپنے گھروں میں شریعت نافذ نہ کریں ۔جناب کب تک ہم یہ جھوٹی تسلیاں اپنے آپ کو دے دے کے ایامِ حیات گذارتے رہیں ۔کچھ تو خیال کریں کہ موت کا وقت معین ہے، روبرو ہونا ہے، صف میں کھڑا ہونا ہے، حساب دینا ہے، اعمال نامہ تھامنا ہے،جزا و سزا کا اعلان سننا ہے ۔اس شامی بچے کے بارے میں پوچھا جائے گا جس نے کہا تھا کہ میں اپنے خدا کو جاکے اپنے ظلم کی داستان سناؤں گا، وہ برما کے مفلوک الحال خواتین خدا سے روبرو ہوگیں کہ ہمیں جلایا گیا لیکن ہماری مدد کو کوئی نہیں آیا، وہ فلسطین کا نوجوان الله سے کہے گا مجھے لٹکایا گیا لیکن کسی نے بات تک نہ کی، وہ یمن کے بھوکے بچے شکایت کریں گے کہ میں پیاسا تھا بھوکا تھا لیکن مجھے کسی نے نہ پلایا نہ کھلایا، وہ افغانی معصوم حفاظ پوچھیں گے کہ ہمارے چیتھڑے اڑائے گئے لیکن کسی نے ظالم کو نہ روکا۔اتنے سارے مقدمات جب ہمارے خلاف دائر ہونگے تو سر کہاں چھپائیں گے۔نیچے سر دبائیں گے تو گرم پسینے میں ڈوب جائیں گے، اوپر سر اٹھائیں گے تو سورج کی گرمی سے جل جائیں گے، کہاں جائیں گے، کون سا سایا ہوگا جو ہم مجرموں کو بچا سکتا ہے۔
آج کورونا وائرس کی وجہ سے خوف وہراس ہے۔لوگ اجتماعی دعاؤں کا، اذانوں کا، استغفار کا ،منتوں کا، صدقات و نوافل کا اہتمام کر رہے ہیں ۔ایک دوسرے کے لئے دعا کرنے کی تلقین کی جارہی ہے ۔اچھے افعال ہیں مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔بلکہ گلہ اور شکوہ اس بات کا ہو رہا ہے کیا ہم نے اتنے بڑے پیمانے پر یہ نیک اہتمام تب بھی کیا تھا جب ہماری بستیاں اجاڑی جارہی تھیں، بارونق گھر ویرانوں میں تبدیل کئے جارہے تھے، عزتیں لوٹی جا رہی تھیں، ہماری گلیوں سے خون بہایا جارہا ہے، بڑے بڑے ہوائی دھماکوں سے معصوموں کو خوفزدہ کیا جارہا تھا، ہم سے جینے کے حقوق چھینے جارہے تھے، ایک ایک دن میں ہزاروں معصوموں کو سفاکی سے قتل کیا جارہا تھا، عقوبت خانوں میں ناقابلِ بیان سزائیں دی جا رہی تھیں ۔میں اس لئے معذرت خواہ ہوں کیا ہمارے نیک علمائے کرام جس طرح آج ایک ایک دن میں نہ جانے کتنی تحریریں لکھتے اور بیانات دیتے ہیں تب بھی ایسا ہی عمل اپناتے تھے۔جناب آج بات جب پھر اپنی آئی تو وہ ہاتھ بھی دعا کے لئے اٹھنے لگے جو کبھی اٹھا نہیں کرتے، وہ آنکھ بھی نم ہوئی جو شاید ہی کبھی نم ہوا کرتی تھی، وہ دل بھی فکر مند ہوئے جو مشکل سے کبھی فکرمند ہوا کرتے تھے۔آج آخرت اور موت کے چرچے ہیں، جزا و سزا کی خبریں ہیں، قرآن اور احادیث کی باتیں ہیں، توبہ استغفار کے کلمات ہیں ۔میں پہلے ہی عرض کر چکا ہوں مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن میرا سوال اس امت کی اکثریت سے ہے امت جب پامال ہورہی تھی، بھوک سے مررہی تھی، پنجہ اغیار میں تھی اور ابھی بھی ہے،مدد کے لئے پکارتی تھی ، کیا کیا ہم نے مدد تو دور کی بات تھی دعا تک نہیں کر پائے، آنسوں تک نہیں بہا پائے۔
معذرت خواہ ہوں لیکن کہنے سے رک نہیں سکتا ہم دراصل خودغرض ہیں ۔ہم امت سے باہر نکل کر صرف اپنے چھوٹے سے بدن کے بارے میں سوچتے ہیں ۔ہمیں امت کی عزت کی فکر نہیں بلکہ اپنی عزت کی فکر ہے، ہمیں اس امت کی خوشحالی کی تڑپ نہیں بلکہ اپنی تڑپ ہے، ہمیں اس امت کی شان بڑھانا نہیں چاہتے بلکہ اپنی آن اور شان ہر قیمت پہ قائم رکھنا چاہتے ہیں ،ہمیں امت کی بھوک کی فکر نہیں صرف اپنی ہے، اس امت کے بچوں کی فکر نہیں صرف اپنوں کی ہے۔میں یہ نہیں کہتا ہمیں اپنی فکر نہیں کرنی چاہئے بلکہ میری گذارش صرف یہی ہے کہ کم ازکم حسب استطاعت یہ امت دعاؤں میں یاد رہنی چاہئے ۔میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس امت کی فکر میں رویا کرتے تھے، بے حال ہوجاتے، راتوں کو دعائیں کرتے تو پھر کیوں ہم اس سنت سے اعراض کریں؟